وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کا کہنا ہے کہ تحریک فساد کی طرف سے 5 مختلف کالز دی گئیں لیکن پنجاب کے لوگ تحریک فسادکی کسی کال میں شامل نہیں ہوئے اور پنجاب ، سندھ اور بلوچستان کے لوگوں نے ہر طرح کی کالز کو مسترد کیا۔
بدھ کو لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے صوبائی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کی سڑکوں پر دوڑتے اور فرارہوتےعالمی ریکارڈ بنتے دیکھا، دنیا کی کوئی تاریخ میں انقلاب اس طرح نہیں بھاگا، وزیراعلیٰ مریم نواز نے پنجاب کے عوام کا شکریہ ادا کیا ہے اور کی محنت پر ہی پنجاب کے لوگ فساد کی کال کو مسترد کرتے ہیں۔
صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر کہا جا رہا ہے بشریٰ بی بی ملک بچانے نکلی ہیں، اب تو پوری پارٹی بتا چکی بانی پی ٹی آئی نے سنگجانی پر جلسے کی اجازت دے دی تھی لیکن بشریٰ بی بی نے سنگجانی پر جلسے کو ویٹو کردیا، اب بھی کوئی سمجھا دے بشریٰ بی بی گھریلو خاتون ہیں، گھریلو خاتون 3 دن تک کنٹینر پر دندناتی رہیں اور مشکل وقت میں علی امین گنڈاپور کو کہا تم آگے جاؤ میں پیچھے آتی ہوں۔
عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ بشریٰ بی بی لوگوں سے وعدے لے رہی تھیں ، انہیں اکسا رہی تھیں اور پختونوں کا خون گرما رہی تھیں، وہ بیچارے کھڑے رہے لیکن بشریٰ بی بی خود بھاگ گئیں، انہوں نے کہا خان کو لیے بغیر نہیں جاؤں گی لیکن گنڈاپور سمیت دیگر خانوں کے ساتھ ہی واپس چلی گئیں۔
انہوں نے کہا کہ جنہوں نے آخر تک کھڑے رہنا تھا وہ سب سے پہلے بھاگیں، ڈی چوک پر آگے جانا تھا تو گنڈاپور کو کہا تم آگے جاؤ، علی امین گنڈاپور نفرت اور جہاد کے نعرے لگوا کر لوگوں کو لایا تھا لیکن انہیں خود وہ سب بھگتنا پڑا، انہیں گالیاں اور ڈنڈے پڑے، ان کی گاڑی توڑی گئی اور کنٹینر کو بھی آگ لگادی گئی، گاڑی کے ٹائر بھی پھاڑ دیئے گئے کہ یہ بھاگ نہ جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ بشریٰ بی بی کو لگ رہا تھا جیسے پاکپتن کی گلیوں میں گھوم رہی تھیں ، انہوں نے نے بانی پی ٹی آئی کی سیاست کا بیڑہ غرق کیا اور خود کو عقل سے عاری خاتون ثابت کیا۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی خاتون مریم نواز اور کلثوم نواز جیسی ہوتی ہیں، بینظیربھٹو اور نصرت بھٹو کے بھی سر پھٹے تھے، تعویزوں ، مؤکلوں اور ٹونوں پر آپ سیاسی خاتون نہیں بن سکتیں، ان کے لوگ کپڑے اور جوتے چھوڑ کر بھی بھاگ گئے، کچھ دیر تو انقلاب کا انتظار کرتے، ریاست کے پاس بہت سارے طریقہ کار ہوتے ہیں، ریاست کو اپنی حکمت عملی بنانے اور طریقہ کاروضع کرنے کا اپنا طریقہ کار ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ احتجاج کے دوران 171 پولیس اہلکار زخمی ہوئے اور 4 رینجرز اور پولیس کے جوان شہید ہوئے، جوانوں کی شہادتیں رائیگاں نہیں جائیں گی، ایک افسوسناک واقعہ کو بھی ڈالرز کیلئے استعمال کیا گیا، ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والے لڑکے ہاشم کی گاڑی نے رینجرز اہلکاروں کو کچلا، ایک وزیرستان کا لڑکا کہہ رہا تھا ہم لاشیں لینے آئے ہیں لے کر واپس جائیں گے، ایک کہہ رہا تھا ہم نے پارلیمنٹ ہاؤس، وزیراعظم ہاؤس جانا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ قانون حرکت میں آنے پر کہتے ہیں ہماری بنیادی حقوق خراب ہو رہے ہیں، باہر بیٹھ کر جہاد لوگوں کو کہہ رہے تھے انٹرنیٹ ڈیوائس ساتھ لے آئیں، افغانیوں اور طالبان کے جوتے میں موزے بھی نہیں تھے، افغانیوں اور طالبان کے پاس کھانے کیلئے روٹی نہیں تھی، باہر سے بیٹھ کر کہہ رہے ہیں انٹرنیٹ ڈیوائس ، خشک میوہ جات ضرور لے جائیں، ان کے فساد اور ذلالت کا شکار ہونےوالے لوگ پکڑے گئے ہیں۔