وزیراعلیٰ خیبرپختون خوا کی زیر قیادت قافلے کا اسلام آباد کی جانب سفر جاری ہے لیکن حکومت نے بھی مظاہرین کو روکنے کیلئے سخت انتظامات کر رکھے ہیں اور اسلام آباد سمیت اطراف میں 30 ہزار اہلکار تعینات کیئے گئے ہیں جن میں رینجرز بھی شامل ہے۔
پشاور سے آنے والے قافلے میں مظاہرین کی جانب سے پولیس پر پتھراو کیا جارہاہے جبکہ پی ٹی آئی کارکنان نے ہاتھوں میں ڈنڈے اٹھا رکھے ہیں ۔ لاہور میں حالات معمول پر ہیں اور کسی قسم کا کوئی احتجاج ریکارڈ نہیں کیا گیا جبکہ جزوی طور پر جی ٹی روڈ پر ٹریفک بھی بحال کر دی گئی ہے ۔
سیکرٹری اطلاعات پی ٹی آئی شیخ وقاص اکرم نے اپنے بیان میں بتایا کہ وزیر اعلیٰ کے پی علی امین گنڈاپور کی قیادت میں قافلہ پشاور سے روانہ ہو چکا ہے جبکہ بشریٰ بی بی پشاور سے نکلنے والے تحریک انصاف کے قافلے کا حصہ ہیں۔
شیخ وقاص اکرم کا کہنا تھا کہ بشریٰ بی بی ورکر کے شانہ بشانہ اسلام آباد جا رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ورکر کو اس وقت اکیلا نہیں چھوڑا جا سکتا ، اگر ہم ورکر سے اسکی فیملی کی شمولیت کی توقع رکھتے ہیں تو خان کی فیملی سب سے پہلے مارچ کا حصہ ہوگی ۔
انہوں نے مزید کہا کہ خان کے دیے گئے اہداف کامیابی سے حاصل کریں گے۔
فیض آباد
پی ٹی آئی کے مظاہرین کی جانب سے فیض آباد میں پولیس اہلکاروں پر پتھرائو کیا گیا اور اسلام آباد میں داخلے کی کوشش کی گئی لیکن پولیس کی بھاری نفری تعینات ہونے کی وجہ سے داخلے کو ناکام بنا دیا گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ کسی بھی شرپسند کو وفاقی دارالاحکومت میں داخلے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔
عمرا ایوب کی سربراہی میں قافلہ
قائد حزب اختلاف عمرایوب خان کی قیادت میں پی ٹی آئی احتجاج کے لیے ہری پور سے اسلام آباد کے لئے قافلہ روانہ ہوا۔ ہری پور سے روانگی کے وقت میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کا کہنا تھا کہ ہماری کال کی کامیابی یہ ہی ہے کہ حکومت نے پورے ملک کو اسلام آباد اور راولپنڈی سے منقطع کر دیا ہے، موٹر وے مرمتی کام کے بہانے بند کر دی گئی ہے۔
تاہم، پنجاب کے پی بارڈر جھنڈ کے مقام پر قافلہ پہنچنے پر پولیس کی جانب سے مظاہرین پر شیلنگ کی گئی۔ دوسری جانب اٹک موٹروے ایم ون پرغازی سے پہنچنے والے قافلے کے کارکنوں کی جانب سے پولیس پر پتھراؤ کی اطلاعات بھی موصول ہوئیں۔
قافلے کے کارکنوں نے موٹروے پر آگ لگائی اور اس دوران پولیس سامنے کھڑی انھیں وارننگ دیتی رہی۔
وزیر داخلہ محسن نقوی

وزیر داخلہ محسن نقوی نے تینوں شہروں کے مختلف علاقوں میں سکیورٹی انتظامات کا فضائی جائزہ لیا ، صوابی ، پتھر گڑھ، موٹر وے پر بھی مجموعی صورتحال کا فضائی مشاہدہ کیا اور سکیورٹی انتظامات پر اظہار اطمینان کیا۔
اس موقع پر محسن نقوی کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم کے مطابق امن عامہ یقینی بنانے کیلئے ضروری اقدامات کئے ہیں، حکومت نے عوام کی جان و مال کے تحفظ کیلئے ہر ممکن اقدامات کئے ہیں ، شر پسندوں سے قانون کے مطابق سختی سے نمٹا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ کسی کو دارالحکومت میں امن وامان کی صورتحال خراب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، انتظامیہ، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ہر ممکنہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے تیار ہیں۔
جنوبی پنجاب میں پی ٹی آئی کارکنان کی گرفتاریاں
وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کی قیادت میں پشاور سے قافلہ اسلام آباد کی طرف روانہ ہے جبکہ مختلف شہروں سے بھی کارکنان قافلوں کی شکل میں اسلام آباد جانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن حکومتی انتظامات کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں ۔
جنوبی پنجاب میں پولیس نے کارروائیاں کرتے ہوئے 4438 چھاپے مارے جس دوران تمام اضلاع سے 1536 کارکنان کو گرفتار کر لیا گیاہے ، تمام افراد کو جنوبی پنجاب میں نقص امن پیدا کرنے کے الزام میں حراست میں لیا گیاہے ۔
ملتان ڈویژن میں 2952 چھاپے مارے گئے جس دوران 1182 پی ٹی آئی کارکنان کو حراست میں لیا گیا جبکہ بہاولپور ڈویژن میں 1161 کارروائیاں کی گئیں جس میں 255 افراد کو گرفتار کیا گیا ۔
ڈیرہ غازی خان میں 323 چھاپوں کے دوران 99 کارکنان کو گرفتار کر لیا گیا ۔ پولیس کا کہناہے ک کسی کو بھی نقص امن پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔
لاہور
لاہور کےعلاقے بتی چوک سے تحریک انصاف کی احتجاج کی کال پر آنے والے دس کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا،گرفتار کیے جانے والوں میں چھ خواتین بھی شامل ہیں۔
گرفتارکارکنوں کو پولیس نے قیدی وین میں منتقل کردیا،پولیس کا کہنا ہے کہ کارکنوں کودفعہ ایک سو چوالیس کی خلاف ورزی پرگرفتارکیاگیا ہے،بتی چوک کےاطراف سڑکوں کو کنٹینر لگا کر بند کردیا گیا ہے۔
لاہور کےعلاقہ لٹن روڈ پر پی ٹی آئی کی ریلی سے پولیس نے سیکرٹری اطلاعات پنجاب حافظ ذیشان اور سابق ایم پی اے ندیم عباس بارا کو حراست میں لے لیا،دوسری جانب شاہدرہ میں پی ٹی آئی کے قافلے پر پولیس نے دھاوا بول دیا،پولیس نے 6 کارکنان کو گرفتار کرلیا۔
جہلم
پولیس نے اسلام آباد دھرنے میں جاتے ہوئے ایم پی اے رفعت زیدی کے قافلے پر چھاپہ مار کارروائی کرتے ہوئے 21 کارکنان کو گرفتار کر لیاہے ۔
پولیس نے جی ٹی روڈ سوہاوہ کے قریب پی ٹی آئی کے قافلے پر کریک ڈاون کیا ، ایم پی اے سید رفعت محمود زیدی ساتھیوں کو چھوڑ کر فرار ہو گئیں ، ایم پی اے کی قیادت میں قافلہ اسلام آباد دھرنےکےلئےجارہاتھا، دوکوسٹرپانچ گاڑیاں جھنڈےبھی پولیس نےقبضےمیں لےلئے۔
فیصل آباد اور سرگودھا
فیصل آبادسرگودھا روڈپرتحریک انصاف کے کارکنان کی جانب سے انٹرچینج کے قریب پولیس پر پتھراو کیا گیا،پولیس نے احتجاج اور پتھراو کرنے میں ملوث ایم پی اے سمیت چار سو سے زائد کارکنان کو گرفتار کر لیا،پولیس کی بھاری نفری سرگودھا روڈ پر طلب کرلی گئی۔
گوجرانوالہ
گوجرانوالہ کے علاقے تتلےعالی میں پولیس اور پی ٹی آئی کارکنان آمنے سامنے آگئے،سابقہ ایم این اےپی ٹی آئی بلال اعجازاحتجاج میں شامل ہونےکےلیےکارکنان کےہمراہ نکلے،پولیس نے روکا تو کارکنان نے پولیس اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بنا ڈالا،کارکنان کےتشدد کےبعد پولیس اہلکاروں نےبھاگ کرجان بچائی۔
پولیس نےپی ٹی آئی کے6کارکنان کوحراست میں لیکرتھانہ منتقل کردیا،سینٹرل پنجاب کےصدررانابلال اعجازاورضلعی صدرپولیس حراست سےفرارہوگئے۔
سیکیورٹی ہائی الرٹ
پی ٹی آئی کے احتجاج کے پیش نظر اسلام آباد اور راولپنڈی میں سیکیورٹی ہائی الرٹ ہے، 6 ہزار پولیس اہلکار اور افسران تعینات کیے گئے ہین جبکہ 2 ہزار پولیس نفری بیک اپ کے لیے تیار ہے۔ راولپنڈی سے اسلام آباد داخلے کے لیے 135 بلاگنگ پوائنٹس اور چوکیاں قائم ہیں، اینٹی رائڈ اور ایلیٹ فورس کو فسادات سے نمٹنے کے لیے آلات فراہم کردیے گئے۔
پولیس اہلکاروں کو موبائل فون کے استعمال سے روک دیا گیا، انٹرینٹ کی سہولت انتہائی سلو کردی گئی جبکہ میٹرو بس سروس تاحکم ثانی بند ہے۔
جڑواں شہروں کا مرکزی رابطہ پل فیض آباد انٹرچینج ہرطرح کی ٹریفک کے لیے بند کردیا گیا، اسلام آباد ایکسپریس وے اور آئی جی پی روڈ کو مختلف مقامات پر بند کردیا گیا جبکہ مری روڈ کو فیض آباد سے صدر تک مختلف پوائنٹس سے بند کر دیا گیا۔
70 مقامات کی سی سی ٹی وی کیمروں سے نگرانی کی جائے گی، پولیس کو آنسو گیس کے شیل فراہم کردیے گئے۔ پولیس حکام کے مطابق دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر قانون حرکت میں آئے گا۔
پنجاب اور خیبرپختونخوا کا زمینی رابطہ منقطع
تحریک انصاف کے آج اسلام آباد میں احتجاج کے باعث پنجاب اور خیبرپختونخوا کا زمینی رابطہ منقطع ہوگیا۔
جی ٹی روڈ اٹک خورد کے مقام کو دونوں اطراف سے کنٹینر لگا کر مکمل سیل کردیا گیا، اٹک خورد چیک پوسٹ پر رینجر، ایف سی اور پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے۔
موٹروے ایم ون بھی 3 مختلف مقامات سے دونوں اطراف سے مکمل بند ہے جبکہ پی ٹی آئی ضلع اٹک کی قیادت اور کارکنان خیبرپختونخوا پہنچ چکے ہیں۔
وزیراعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کے قافلے کو پنجاب داخلے سے روکنے کے تمام ترانتظامات مکمل کرلیے گئے جبکہ فورسز موٹروے اور جی ٹی روڈ پر الرٹ ہے۔
لاہور کے تمام داخلی و خارجی راستے بند
پی ٹی آئی کے احتجاج کے پیش نظر لاہور کے تمام داخلی اور خارجی راستے بند کردیے گئے، جس کے باعث شہریوں کومشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
احتجاج کے باعث تمام رابطہ سڑکیں کنٹینرز لگا کر بند کردی گئی، لاہور سے دیگر شہروں کو جانے والی موٹرویز کو بند کر دیا گیا، بابو صابو کو بھی کنٹینرز اور بیریئرز لگا کر بند کرکے پولیس کی بھاری نفری تعینات کردی گئی۔
شاہدرہ اور بتی چوک جانے والی سڑک کو بھی دونوں اطراف سے بند کیا گیا، آزادی فلائی اوور پر بھی کنٹینرز موجود ہیں، جس کے باعث شہری خوار ہورہے ہیں جبکہ آزادی فلائی آوور پر پولیس کی نفری ڈنڈے تھامے موجود ہے۔
لاہور سے اسلام آباد جانے والی موٹر وے بھی بند ہے، بند روڈ پر واقع تمام بس اڈے بھی بند کردیے گئے جبکہ لاہور رنگ روڈ تمام انٹرجینجز سے ٹریفک کے لیے مکمل بند یے۔
راوی پل، پرانا راوی پل، سگیاں راوی پل، ایسٹرن بائی پاس اور بابوصابو مکمل ان اور آؤٹ کے لیے بند ہیں، ٹھوکر نیاز بیگ سے ملتان روڈ پر ٹریفک آ اور جا سکتی ہے، رائے ونڈ روڈ، فیروز پور روز، گجومتہ ٹریفک کے لیے کھلے ہیں۔
پی ٹی اے ذرائع کا کہنا ہے کہ موبائل فون کھلا ہوگا مگر انٹرنیٹ اور وائی فائی بند ہوگا، موبائل سنگل کی بندش کا فیصلہ حالات کو دیکھ کر کیا جائے گا۔
ترجمان وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ صرف سیکیورٹی کے خدشات والے علاقوں میں موبائل ڈیٹا اور وائی فائی سروس کی بندش کا تعین کیا جائے گا، ملک کے باقی حصوں میں انٹرنیٹ اور موبائل سروس معمول کے مطابق چلتی رہے گی۔
دہشت گرد حملوں کا الرٹ جاری
تحریک انصاف کے احتجاج میں خودکش حملے کے خطرے کے پیش نظر نیکٹا کے بعد وزارت داخلہ خیبرپختونخوا نے بھی دہشت گرد حملوں کا الرٹ جاری کردیا۔ وزارت داخلہ کے مطابق پی ٹی آئی کے اجتماع پر خودکش حملے کا مقصد عوام میں افراتفری پھیلانا ہے۔
نیکٹا نے بھی اپنے الرٹ میں کہا تھا کہ اطلاعات ہیں کہ 19 اور 20 نومبر کی درمیانی رات فتنہ خوارج کے دہشت گرد پاک افغان بارڈر سے پاکستان میں داخل ہوگئے ہیں، جو آج عوامی مقامات پر دہشت گردی کرسکتے ہیں۔






















