پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان پانچ روزہ مذاکرات اختتام پذیر ہوگئے ہیں ، آخری روز آئی ایم ایف مشن کے وفاقی وزیر خزانہ، صوبائی حکومتوں، ایف بی آر کیساتھ بات چیت کے سیشن ہوئے جس دوران عالمی مالیاتی فنڈ کو صوبائی سرپلس بجٹ پر قائل کرلیا گیا ہے جبکہ زرعی ٹیکس کے حوالے سے بھی جزوی کامیابی حاصل ہوئی ہے ۔
تفصیلات کے مطابق حکومت نے بیرونی فنانسنگ کے انتظامات کی بھی یقین دہانی کروا دی ہے ۔ آئی ایم ایف نے سالانہ ٹیکس اہداف کے حصول،زرعی انکم ٹیکس وصولی کے اقدامات پر زور دیا ۔آئی ایم ایف کا مشن قرض پروگرام کے تحت پہلے اقتصادی جائزے کیلئے وفد فروری مارچ میں پھر پاکستان آئے گا۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے آج مہمان وفد سے الوداعی ملاقات بھی کی ۔ پاکستان نے آئی ایم ایف مشن کو قرض پروگرام پرسختی سے کاربند رہنے کی یقین دہانی کروائی ۔ حکومت نے ٹیکس اور توانائی شعبے میں اصلاحات کے ساتھ ساتھ بیرونی فنانسنگ گیپ پورا کرنے کیلئے اقدامات کا عزم بھی دہرایا۔
مشن کے ارکان نے صوبائی نمائندوں سے غیر معمولی سوالات کیے ، مختلف شہروں میں پراپرٹی قیمتوں کا جائزہ لیا گیا اور فوڈ سیکیورٹی پر بھی سوالات اٹھائے گئے ۔جنوری 2025 سے بی آئی ایس پی مستحقین کے وظیفے میں 3 ہزار روپے اضافے کو سراہا۔
آج کے اجلاس میں ٹیکس اہداف کے حصول، قومی مالیاتی معاہدے پر عمل درآمد اورپنجاب کی طرز پر دیگر صوبوں میں زرعی آمدن پر 45 فیصد اور سپر ٹیکس وصولی کیلئے قانون سازی تیز کرنے زور دیا گیا ۔
ذرائع کے مطابق ملک میں زراعت اور لائیو اسٹاک سے 2300 ارب روپے ٹیکس آمدن کی صلاحیت موجود ہے لیکن وصولی نہ ہونے کے برابر ہے ۔
وزارت خزانہ نےصوبائی سرپلس بجٹ سےمتعلق نظرثانی شدہ اعدادوشمارپیش کرکے وفد کو قائل کرلیا ہے اور بتایا رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں آئی ایم ایف معاہدے کے تحت مقررہ ہدف 342 ارب تھا جبکہ صوبائی سرپلس 360 ارب وپے رہا ۔
پنجاب حکومت کا 160 ارب روپے بجٹ خسارہ نظر ثانی کے بعد 40 ارب کے سرپلس میں تبدیل ہوگیا۔
چیئرمین ایف بی آر اور ممبران کی بھی آئی ایم ایف مشن سے ملاقات ہوئی، 12 ہزار 970 ارب روپے کا سالانہ ٹیکس ہدف پورا کرنے اور معیشت دستاویزی بنانے کی حکمت عملی پر بریفنگ دی۔ بتایا ٹیکس نیٹ بڑھانے کیلئے تمام فیکٹریوں اور کارخانوں میں پیداوار کی نگرانی "ڈیجیٹل آئی" نام کے سافٹ ویئر کے ذریعے کی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف مشن 7 ارب ڈالر قرض پروگرام کے پہلے اقتصادی جائزے کیلئے فروری مارچ میں پاکستان آئے گا۔