معلومات تک رسائی کے قانون سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے میں جسٹس اطہر من اللہ نے پانچ صفحات پرمشتمل اضافی نوٹ جاری کردیا۔
رپورٹس کے مطابق اضافی نوٹ میں لکھا گیا ہے کہ عوامی اعتماد بحال کرنے کے لیے سپریم کورٹ خودمعلومات ویب سائٹ پر پبلک کرسکتی ہے۔ کسی شہری کو معلومات کی درخواست کرنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ معلومات فراہم کرنا آئین کے آرٹیکل انیس اے کے تحت بنیادی حق ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ بھی دوہزار سترہ کے ایکٹ کے تحت نہیں آتی تھی لیکن عدالت عالیہ نے رضاکارانہ طور پر معلومات تک رسائی فراہم کی۔ سپریم کورٹ کو بھی ایک مثال قائم کرنا ہوگی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا کہ چیف جسٹس کے تحریر کردہ فیصلے کے آئینی نکات سے اتفاق کرتا ہوں۔ سپریم کورٹ کو اپنے اندرونی معاملات کی معلومات ویب سائٹ پر اپلوڈ کر کے مثال قائم کرنی چاہیئے۔
یہ بھی پڑھیں:۔سپریم کورٹ پر معلومات تک رسائی کے قانون کا اطلاق نہیں ہوتا،فیصلہ
معلومات تک رسائی کرپشن اور کرپٹ پریکٹس کے خلاف آلہ ہے۔ ججز، ملازمین کی مراعات، بجٹ کے استعمال کا عوام کو علم ہونا اہم ہے۔سپریم کورٹ کا رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے دائرے سے باہر ہونا عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہوگا۔ سپریم کورٹ کا رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے دائرے سے باہر ہونا عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہوگا۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ معلومات تک رسائی کے قانون کااطلاق عدالت عظمیٰ پر نہیں ہوتا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں بینچ نے سپریم کورٹ ملازمین کی تفصیلات فراہمی کےلیے دائر درخواست پر فیصلہ سناد دیاتھا عدالت نے سپریم کورٹ ملازمین کی تفصیلات فراہم کرنے کی درخواست منظور کرلی تھی۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ پر معلومات تک رسائی کے قانون کا اطلاق نہیں ہوتا تاہم مفاد عامہ کیلئے سپریم کورٹ ملازمین کی تفصیلات فراہمی کیلئے درخواست دائر کرنے والے شہری کو سات دن کے اندر معلومات فراہم کرنے کی ہدایات بھی جاری کر دیں گئی تھیں۔