26 ویں آئینی ترامیم جس کا محور اور مرکز عدلیہ کی بہتری اور مفاد عامہ ہے کے بارے میں خوش آئند خبر یہ ہے کہ تمام بڑی سیاسی جماعتوں کا اس پر اتفاق ہو گیا ہے اور اب اس کی پارلیمان سے منظوری کے حوالے سے کوئی ابہام باقی نہیں ہے، منگل کی رات جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور پاکستان پیپلزپارٹی کے درمیان ہونے والی ملاقات میں 26 ویں آئینی ترامیم کے حوالے سے اتفاق رائے سامنے آیا جس کے بعد بدھ کی رات مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف کے ساتھ مولانا فضل الرحمان اور صدر آصف علی زرداری کی جاتی امرا میں ملاقات میں تینوں بڑی جماعتوں کا آئینی ترامیم کے حوالے سے مل کر چلنے پر اتفاق ہوا جس کا باقاعدہ اعلان مولانا فضل الرحمان نے کیا
ملک کی تینوں بڑی جماعتوں اور دیگر چھوٹی جماعتوں کے درمیان آئینی ترامیم کے حوالے سے آئین پاکستان پر مکمل اتفاق کیا گیا اور یہ بھی کہا گیا کہ اس بات سے قطع نظر کے وفاقی آئینی عدالت قائم کی جاتی ہے یا وفاقی آئینی بینچ تشکیل دیا جاتا ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ مقصد صرف اور صرف عدلیہ کی استعداد کو بڑھانا اور بہتر کرنا ہے۔ چاہے وفاقی آئینی عدالت کا قیام عمل میں لایا جائے یا آئینی بینچ تشکیل دیا جائے اس سے ایک جانب عدالتوں میں موجود آئینی اور قانونی نوعیت کے کیسز کو علیحدہ سے سننے کی سہولت حاصل ہو جائے گی جبکہ عدالتوں بالخصوص اعلی عدلیہ میں جو روز مرہ کے مقدمات کا بیک لاگ موجود ہے اس کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔
قانونی ماہرین کے مطابق یہاں یہ بات اہم ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ساتھ ساتھ ملک بھر کی دیگر عدالتوں میں ہزاروں کی تعداد میں کیسز زیر التوا ہیں ۔ اگر آئینی عدالت یا آئینی بینچ کوئی بھی تشکیل پاتا ہے تو اس سے ان اعداد و شمار کو کم کرنے میں بڑی مدد ملے گی
قانونی ماہرین کے مطابق یہاں اس بات کی وضاحت بہت ضروری ہے کہ آئینی بینچ یا آئینی وفاقی عدالت کے بڑے مقاصد اعلیٰ اختیاراتی کمیشن کی تشکیل کے ذریعے عدلیہ کی نگرانی سے حاصل کئے گئے ہیں، لہٰذا یہ کہنا کہ اس 26 آئینی ترامیم کے ذریعے عدلیہ پر کوئی قدغن لگایا جا رہا یا اس کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے محض پروپیگینڈا تو ہوسکتا ہے مگر اس میں حقیقت نہیں ہے۔ آئینی ترامیم پیکیج کے ذریعےدراصل عدلیہ کو مزید بااختیار بنایا جائےگا اور وقت ثابت کرے گا کہ ترامیم پیکیج سے عدلیہ کی کارکردگی بہتر ہو گی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ وفاقی آئینی عدالت یا بینچ کی تشکیل سے جب روزہ مرہ کے کیسزحل ہونا شروع ہونگے تو عوام کو اس کا براہ راست فائدہ ہو گا