انسداد دہشتگردی عدالت نے ڈی چوک میں احتجاج کے مقدمے میں بانی پی ٹی آئی کی بہنوں علیمہ خان اور عظمیٰ خان کے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کردی۔ عدالت نے دونوں کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم دے دیا۔ پولیس اہلکاروں نے علیمہ خان کو بازو سے پکڑ کرلے جانے کی کوشش کی تو وکلا اور پولیس کے درمیان تلخ کلامی ہوگئی۔
انسداد دہشتگردی عدالت کے جج طاہر عباس سپرا نے مقدمے کی سماعت کے دوران علیمہ خان اور عظمٰی خان کو روسٹرم پر بلا لیا۔ وکیل نیاز اللہ نیازی نے کہا کہ دوسری عدالت میں میگا فون کے استعمال کا الزام بھی آگیا۔ جج نے ریمارکس دئیے نیاز اللہ صاحب آپ لوگ خود تو انہیں راستہ بتاتے ہیں۔ جب کہا گیا کہ میگا فون کہاں ہے تو انہوں نے وہ بات پکڑ لی۔
وکیل عثمان گل نے جج کو یوایس بی دیتے ہوئے عدالت میں ہی چلانے کی استدعا کردی۔ جج نے ریمارکس دئیے آپ اس یو ایس بی کی قانونی حیثیت جانتے ہیں؟۔ کیا آپ نے یہ یو ایس بی پولیس کو یا تفتیشی افسر کو دی تھی۔ عدالت نے یو ایس بی عدالت میں چلانے کی درخواست مسترد کردی۔
عدالت نے پراسیکیوٹر سے ریمانڈ مانگنے کی وجہ پوچھی تو پراسیکیوٹر نے موقف اختیار کیا کہ ملزمان سے بارود اور دھماکہ خیز مواد برآمد کرنا ہے۔ عدالت نے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے دونوں بہنوں کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم دیا۔ علیمہ خان نے فیملی ممبران سے ملاقات کی اجازت دینے کی استدعا کی جوعدالت نے مںظور کرلی۔
علیمہ خان اور عظمٰی خان کے وکلا نے دونوں کی ضمانت کی درخواست بھی دائر کردی۔ عدالت نے 19 اکتوبر کو پراسیکیوشن سے ریکارڈ طلب کرلیا۔ پولیس اہلکاروں نے علیمہ خان کو بازو سے پکڑ کر لے جانے کی کوشش کی تو تو پی ٹی آئی وکلا اور پولیس میں تلخ کلامی ہوگئی۔ کمرہ عدالت میں شور شرابہ ہوا تو عدالت نے علیمہ خان اور عظمٰی خان کو دوبارہ روسٹرم پر بلا لیا۔عدالت نے غیرمتعلقہ افراد کو کمرہ عدالت سے نکال دیا۔