وزیر اعظم کے مشیر اور مسلم لیگ نواز کے اہم رہنما رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے آئین اپنے قبضے میں لے لیا ہے اور آئین دوبارہ لکھنا شروع کر دیا ہے۔
سماء کے پروگرام ’’ ندیم ملک لائیو ‘‘ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم کے مشیر رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ وکلا تنظیموں اور بارز میں آئینی عدالت سے متعلق مشاورت ہو رہی ہے، پاکستان پیپلز پارٹی ( پی پی پی ) کے چیئرمین بلاول بھٹو آج کراچی بار گئے تھے جبکہ کچھ دن پہلے اسلام آبادبار بھی گئے تھے، وزیر اعظم شہباز شریف اور بلاول بھٹو کے درمیان کوئی مقابلہ نہیں ہورہا، میثاق جمہوریت میں آئینی عدالت کے قیام کی بات شامل تھی، اچھی بات ہے کہ اب آئینی عدالت کے قیام کیلئے کام ہو رہا ہے۔
مشیر وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ کیا عدلیہ کے ساتھ پارلیمنٹ کشیدگی کے عنصر کو جاری رکھے یا ڈی فیوزکیا جائے، اُس وقت فیصلہ ہوا کہ کشیدگی کے عنصر کو ڈی فیوز کیا جائے، سپریم کورٹ نے آئین اپنے قبضے میں لے لیا ہے اور آئین دوبارہ لکھنا شروع کر دیا ہے۔
لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ ہمیشہ پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں نے کوشش کی عدلیہ سے تنازع نہ ہو، آئینی عدالتیں ہر قیمت پر بنیں گی، انکا قیام میثاق جمہوریت کی ڈیمانڈ ہے، سپریم کورٹ میں جج انصاف کرسکتے ہیں تو آئینی عدالت میں کیوں نہیں کرسکتے؟۔
رانا ثناء اللہ نے سوال اٹھایا کہ اگر جسٹس منصور علی شاہ کو آئینی عدالت میں لے جائیں تو کیا پی ٹی آئی راضی ہو جائے گی؟، سپریم کورٹ کے 3 سینئر ترین ججز میں سے کسی کو آئینی عدالت کا چیف جسٹس لگایا جا سکتا ہے، چیف جسٹس سے پی ٹی آئی کو خطرہ ہے تو دوسرے یا تیسرے نمبر والے جج سے خوش ہو جائے گی؟۔
ان کا کہنا تھا کہ سربراہ جمعیت علماء اسلام ( جے یو آئی ) مولانا فضل الرحمان آئینی عدالت بنانے کے حق میں ہیں ، ان سے آئینی ترمیم کے طریقہ کار اور دیگر معاملات پر بات ہو سکتی ہے، آئینی ترمیم میں ہائیکورٹ ججز کی تقرریوں سمیت تمام پہلو زیر غور ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون میں 3 سینئر ججز کو بینچ بنانے کا اختیار دیا گیا، ماضی میں چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے ساتھ جوسلوک ہوتا رہا سب جانتے ہیں، سابق چیف جسٹس صاحبان عمر عطا بندیال اور ثاقب نثار کے وقت میں قاضی فائزعیسیٰ کے ساتھ کیا سلوک ہوتا رہا۔
رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ کہا جا رہا ہے 4 مہینے بعد آئینی ترمیم کر لیں ، 4 مہینے میں کیا کرنا چاہتے ہیں؟، قومی اسمبلی اجلاس کے وقت آئینی ترمیم پر حوصلہ افزا مشاورت ہو رہی تھی، ایک رائے تھی کہ آئینی ترمیم پر اسمبلی اجلاس بلا لینا چاہیے جبکہ ایک رائے تھی کہ پہلے مشاورتی عمل مکمل کرلیا جائے، میری رائے تھی مشاورت سے پہلے اسمبلی اجلاس نہ بلایا جائے، نواز شریف کسی بھی اہم معاملے پر پارٹی کی سی ای سی سے مشاورت کرتے ہیں، جو ٹیم آئینی ترمیم پر مشاورت کر رہی تھی وہی ٹیم نوازشریف کو بھی بریف کر رہی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ آئینی ترمیم کا پیکج مکمل نہیں ہوا اس لیے وفاقی کابینہ اور اسمبلی میں نہیں آیا، آئینی ترمیم کا پیکج مکمل ہونے کے بعد نواز شریف نے اسے دیکھنا تھا، وہ جس چیز پر راضی نہ ہوں حکومت وہ کام نہیں کرے گی، آئینی عدالت کے قیام سے متعلق سیاسی قیادت متفق تھی، ایسا نہیں ہے کہ حکومت نواز شریف سے رائے کے بغیر معاملے پر آگے بڑھ رہی تھی، وہ پارٹی کے لیڈر ہیں ، وفاق اور پنجاب میں ان کی حکومت ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پی ٹی آئی والے مذاکرات پر یقین نہیں رکھتے اور کسی سے بات چیت کو تیار ہی نہیں۔