قومی اسمبلی کی نجکاری کمیٹی کے چیئرمین فاروق ستار کا کہنا ہے کہ یکم اکتوبر کو پی آئی اے کی نجکاری کی بولی ہونے جا رہی ہے،6 کمپنیاں یکم اکتوبر کو پی آئی اے کی بولی لگائیں گی، یکم اکتوبر کو اصل میں پی آئی اے کی نیلامی ہو جائے گی۔
فاروق ستار کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی نجکاری کمیٹی کا اجلاس ہوا،اجلاس میں چیئرمین کمیٹی فاروق ستار کا کہنا ہے کہ تمام اداروں میں سے پی آئی اے کی نجکاری سب سے پہلے ہو رہی ہے، یکم اکتوبر کو پی آئی اے کی نجکاری کی بولی ہونے جا رہی ہے، ہم کوشش کریں گے کہ پی آئی اے کی بولی کو لائیو دیکھ سکیں، علیم خان کو گزارش کریں گے کی ہمارے وہاں جا کر بولی دیکھنے کے انتظامات کریں۔
چیئرمین کمیٹی فاروق ستار کا کہنا ہے کہ آج کی میٹنگ پی آئی اے کو الوداع کہنے کی آخری میٹنگ ہوگی، 6 کمپنیاں یکم اکتوبر کو پی آئی اے کی بولی لگائیں گی، یکم اکتوبر کو اصل میں پی آئی اے کی نیلامی ہو جائے گی، اس کے بعد ملازمین کے حقوق کا معاملہ ہماری نظر میں رہے گا،ملازمین کی تنخواہوں اور الاونسز پر کوئی سودا نہیں ہونا چاہئیے۔
سیکریٹری نجکاری کمیشن عثمان باجوہ کا کہنا ہے کہ فائنل 6 کمپنیاں اس وقت اپنی بولی کی تیاری میں ہیں، یکم اکتوبر کو یہ 6 کمپنیاں بولی میں حصہ لیں گی، کابینہ فیصلہ دے گی کہ بولی کی قیمت منظور ہے یا نہیں، نومبر 2023 میں ہم نے پی آئی اے کے لیے فنانشل ایڈوائزر ہائر کیا، پی آئی اے کی نجکاری کے تمام مراحل کے بعد ہم فائنل مرحلے پر پہنچ چکے ہیں۔
رکن کمیٹی سحر کامران کا کہنا ہے کہ بتایا جائے کہ بولی دہندگان کن شرائط کو قبول کر رہے ہیں، ہمیں اس حوالے سے خدشات ہیں کہ کہیں برانڈ کا نام تبدیل نہ ہو جائے، اگر پی آئی اے کا نام تبدیل ہوگیا تو روٹ بھی چلے جائیں گے۔
رکن کمیٹی صبا صادق کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کے ہیومن ریسورس کے حوالے سے ہمارے تحفظات ہیں، نجکاری کا سننے کے بعد ملازمین مایوس ہیں۔
عثمان باجوہ سیکریٹری برائے نجکاری کمیشن کا مزید کہنا تھا کہ معاہدے کا حصہ ہے کہ پی آئی اے کا فلیٹ سائز بڑھایا جائے گا، ہماری شرط یہ تھی کہ تین سالوں میں جہازوں کا فلیٹ 18 سے 45 فیصد بڑھایا جائے، شرط میں یہ بھی ہے کہ روٹس حکومت کی اجازت کے بغیر نہیں سیل کر سکتے، یوکے کا جب روٹ کھلے گا تو وہ بھی استعمال کیا جائے گا۔
سیکرٹری نجکاری کمیشن عثمان باجوہ نے کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا کہ پی آئی اے نجکاری کیلئے مجوزہ معاہدے کے مسودے پر بات چیت جاری ہے، وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد معاہدے کو حتمی شکل دی جائے گی، پی آئی اے کے خریدار کو پہلے دن سے سرمایہ کاری کرنا ہوگی، پہلے سال پی آئی اے میں 65 سے 70 ارب روپے لگانے پڑیں گے۔
بریفنگ میں سیکرٹری نجکاری کمیشن نے مزید بتایا کہ حکومت نے پی آئی اے کے زمہ 800 ارب روپے میں سے 600 کے واجبات اپنے ذمہ لے لئے ہیں،پی آئی اے کے زمہ بینکوں کا کوئی قرضہ واجب الادا نہیں ہے، جہازوں کے انجنز کی مرمت اور سول ایوی ایشن کو واجب الادا 200 ارب کا پرانا قرضہ باقی ہے، نجکاری کے بعد پی آئی اے کے ملازمین کو ملازمت پر 2 سے 3 سال برقرار رکھا جائے گا۔
عثمان باجوہ نے کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا کہ پی آئی اے کا خریدار موجودہ ملازمین کو پنشن کی ادائیگی کیلئے 35 ارب روپے خرچ کرے گا،پی آئی اے کے بیڑے میں نئے جہاز شامل کیئے جائیں گے، جہازروں کی موجودہ اوسط عمر 17 سال سے کم کرکے 10 سال کی جائے گی، خریدار کمپنی موجودہ 7310 ملازمین کی تنخواہ اور مراعات میں کمی نہیں کر سکے گی۔
سیکرٹری نجکاری کمیشن عثمان باجوہ نے کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا کہ مڈل ایسٹ، سعودء عرب، کینیڈا سمیت پی آئی اے کے تمام روٹس پر جہاز چلائے جائیں گے،نئی انتظامیہ پی آئی اے کے مقامی روٹس کے تحفظ کی بھی پابند ہوگی، برطانیہ کا روٹ بحال ہونے پر فلائٹس کا آغاز کیا جائے گا،یورپ کی جانب سے بین بھی جلد ہٹنے کا امکان ہے، پی آئی اے کا روٹ فتوخت کرنے یا جاری نہ رکھنے کی حکومت سے اجازت لینا ہوگی۔
سیکرٹری نجکاری کمیشن کا مزید کہنا تھا کہ پی آئی اے میں نئی سرمایہ کاری سے ماڈرنائزیشن کا آغاز ہو جائے گا، اس وقت پی آئی اے کے 34 میں سے 18 جہاز آپریشنل ہیں، مزید دو جہاز جلد آپریشنل ہونگے، تعداد 20 تک پہنچ جائے گی، پہلے پی آئی اے ملازمین کو 25 تاریخ کو تنخواہ ملتی تھی، پچھلے چار ماہ سے تنخواہ یکم سے پسنچ تاریخ کے دوران دی جارہی ہے، ڈیبٹ ری پروفائلنگ کی وجہ سے مالی صورت حال میں بہتری آئی ہے۔
سیکرٹری نجکاری کمیشن کا کہنا تھا کہ پی آئی اے کی نجکاری کے بعد برانڈ کا نام تبدیل نہیں ہوگا، نجکاری کے بعد بھی قومی ایئر لائن کا نام پی آئی اے برقرار رہے گا اگر پی آئی اے کے 100 فیصد شیئرز فروخت نہ ہوئے تو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ بن جائے گی، اقلتی شیئرز حکومت کے پاس اور نجی کمپنی کے پاس مینجمنٹ کنٹرول ہوگا، نئی مینجمنٹ کو 100 نئے کیبن عملے سمیت اضافی ملازمین درکار ہونگے۔
عثمان باجوہ نے کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا کہ نجکاری کے بعد نئے جہاز آنے سے وائی فائی سہولت سمیت انٹرٹینمنٹ سسٹم بھی نصب ہوگا، پی آئی اے نجکاری کے بعد ٹیک آف کرے گی، مقابلے کی فضاء پیدا ہونے سے کرایوں میں استحکام آئے گا، قطر ائیر لائن سمیت دیگر علاقائی ایئر لائنز کے ساتھ مقابلے کا ماحول پیدا ہوگا، نئی انتظامیہ کو تین سال میں تقریبا 300 ارب روہے سرمایہ کاری کرنا پڑے گی۔
سیکرٹری نجکاری کمیشن عثمان باجوہ نے کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا کہ جہازوں کی تعداد بڑھ کر 40 سے 45 تک پہنچ جائے گی، نئے جہازوں کی خریداری سے حکومت کو 18 فیصد جی ایس ٹی بھی ملے گا، اس وقت ایف ای ڈی کی مد میں 1.2 ارب سے 1.5 ارب روپے حاصل ہورہے ہیں، پی آئی اے کی نجکاری سے حکومت کے ٹیکس ریونیو میں اضافہ ہوگا، نئے خریدار کو کسی قسم کی ٹیکس چھوٹ نہیں دی جائے گی۔
چیئرمین کمیٹی فاروق ستار نےیکم اکتوبر کو بولی سے پہلے ان کیمرہ بریفنگ دینے پر زوردیا ہے کہ مجوزہ معاہدے کے مسودے پر کمیٹی ارکان کو بریفنگ دی جائے، اس سے نجکاری کا عمل شفاف بنانے میں ہماری بھی ایک مہر لگ جائے گی، فاروق ستار نے ملازمین کو نہ نکالنے اور پنشن کا تحفظ دینے پر زور دیا ہے،ملازمین کو برقرار رکھنے کی مدت بڑھا کر 4 سے 5 سال کی جائے۔ پی آئی اے ملازمین اپنے مستقبل سے پریشان ہیں۔
چیئرمین کمیٹی فاروق ستار کا کہنا ہے کہ ملازمین نے آج صبح بھی آتے ہوئے مجھے روک کر اس حوالے سے خدشات ظاہر کیئے۔گریٹ پیپل ٹو فلائی ود کا سلوگن برقرار رہنا چاہئے،مقامی فضائی کرائے اچانک ڈبل ہو جاتے ہیں اس معاملے کو بھی دیکھا جائے پی آئی اے کے موجودہ اثاثوں کی مالیت 150 ارب روہے ہے، پی آئی اے کے زمہ 200 ارب روہے کے واجبات ہیں، بولی دہندگان کو 45 ارب روپے کے خسارے سے بولی کا آغاز کرنا پڑے گا۔