امریکہ کے صدارتی انتخابات 5 نومبر کو ہونے والے ہیں، اور نائب صدر کملا ہیرس اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان مقابلہ انتہائی دلچسپ مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ جولائی میں صدر جو بائیڈن کے انتخابات سے دستبردار ہونے اور ہیرس کو ڈیموکریٹک امیدوار کے طور پر نامزد کرنے کے بعد، سیاسی منظرنامہ مزید سنسنی خیز ہو گیا ہے۔
10 ستمبر کو پنسلوینیا میں کملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ہونے والے مباحثے نے انتخابی مہم میں ایک نیا موڑ دیا۔ تقریباً 67 ملین ناظرین نے اس مباحثے کو دیکھا، جو دونوں امیدواروں کے لیے اپنے نظریات پیش کرنے اور غیر یقینی ووٹرز کو اپنی طرف مائل کرنے کا ایک اہم موقع تھا۔
رائٹرز/ایپسوس کے سروے کے مطابق، 53 فیصد ناظرین کا خیال تھا کہ کملا ہیرس نے مباحثے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا، جبکہ صرف 24 فیصد نے ڈونلڈ ٹرمپ کو فاتح قرار دیا۔ اسی طرح یوگوو کے سروے میں بھی 55 فیصد لوگوں نے ہیرس کو بہتر پرفارمر قرار دیا۔ تاہم، اس مباحثے کے بعد ووٹر کی رائے میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی اور دونوں امیدواروں کے درمیان برتری کا فرق تقریباً وہی رہا۔
ہیرس نے اس انتخابی مہم میں آہستہ آہستہ ایک مستحکم سبقت حاصل کر لی ہے، خاص طور پر قومی سطح پر، لیکن انتخابات کا حتمی فیصلہ اہم جنگی ریاستوں پر منحصر ہوگا۔ پنسلوانیا، مشی گن، اور وسکونسن جیسی ریاستوں میں مقابلہ بہت سخت ہے، اور یہاں ہیرس اور ٹرمپ کے درمیان صرف چند فیصد کا فرق ہے۔
انتخابی جائزوں کی بات کی جائے تو یہ ایک عمومی رجحان دکھاتے ہیں، لیکن امریکی انتخابی نظام میں الیکٹورل کالج کی اہمیت کے باعث یہ نتائج ہمیشہ حتمی نہیں ہوتے۔ جیت کے لیے کسی بھی امیدوار کو 270 الیکٹورل ووٹ درکار ہوتے ہیں، اور اس بار بھی یہ ریاستیں اس دوڑ میں اہم کردار ادا کریں گی۔
جیسے جیسے انتخابات کا دن قریب آ رہا ہے، کملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ کی مہمات میں تیزی آ رہی ہے۔ دونوں امیدواروں کے لیے اہم چیلنجز میں ووٹرز کا اعتماد جیتنا، غیر یقینی ووٹرز کو اپنی طرف مائل کرنا، اور الیکٹورل کالج کے ووٹ حاصل کرنا شامل ہیں۔
یہ انتخاب امریکی سیاست کے مستقبل کا تعین کرے گا، اور یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ امریکی عوام کس امیدوار کو اپنا نیا صدر منتخب کرتے ہیں۔