بانی پی ٹی آئی جب سے اقتدار سے قانونی اور آئینی طریقے سے بے دخل ہوئے ہیں اور پھر 8 فروری کے ہونے والے شفاف اور پرامن انتخابات میں انکی جماعت کے شرپسندی کے بیانیے کو ووٹرز نے مسترد کیا ہے اس کے بعد سے بانی پی ٹی آئی نے تقریباً ہر وہ حربہ آزما لیا ہے جس سے وہ اقتدار میں واپس آسکتے ہیں مگر انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے، سائفر ڈرامے سے لیکر ریاستی اداروں پر ہرزہ سرائی، دھمکیاں، دھونس، مذاکرات کی کوشش مگر ہر حربہ ناکام ہو چکا ہے۔
حال ہی میں بانی پی ٹی آئی نے میڈیا نمائندوں سے گفتگو کی جس میں سوائے تضادات کے اور کچھ نہیں تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر 22 اگست کا جلسہ ملتوی کیا تھا حالانکہ ساتھ ہی ہے وہ کہتے ہیں کہ ان کی تو اسٹیبلشمنٹ سے کسی طرح کی کوئی گفتگو ہی نہیں ہو رہی۔
دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے انہیں کسی طرح کی گھاس نہیں ڈالی جا رہی یہی وجہ ہے کہ بداحواسی میں وہ اپنی باتوں سے حسب روایت مکر رہے ہیں اور بیانیہ بدل رہے ہیں۔
سیاسی مبصرین کے نزدیک دلچسپ امر یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی خواہش ہے کہ مذاکرات صرف فوج سے کئے جائیں مگر ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ میرا ملٹری ٹرائل نہیں ہونا چاہئے، یعنی مذاکرات کیلئے فوج قبول ہے مگر جرائم کے ٹرائل کیلئے ملٹری کی عدالت قبول نہیں۔
میڈیا نمائندوں کے ساتھ گفتگو میں بانی پی ٹی آئی نے دل کھول کر قومی احتساب آرڈیننس پر تنقید کی حالانکہ اسی ترمیم شدہ قانون کے تحت نئے توشہ خانہ ریفرنس میں ان کی جانب سے بریریت کی درخواست بھی دائر کر رکھی ہے، اگر یہ قانونی ترمیم انکے نزدیک قابل قبول نہیں تھی تو مثال قائم کرتے ہوئے کہہ دیتے میں اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھانا چاہتا مگر جو شخص سر تا پیر تضادات کا شکار ہو اس سے یہ امید نہیں کی جاسکتی۔
اسلام آباد کے جلسے میں علی امین گنڈاپور نے جس طرح کی گھٹیا زبان استعمال کی اس حوالے سے تمام مکتبہ فکر کی جانب سے شدید تنقید کی اور مذمت کی جارہی ہے، ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ کو کیا زیب دیتا ہے کہ وہ سٹیج پر کھڑا ہو کر خواتین کی بے حرمتی کرے اور ریاستی اداروں کو دھمکیاں دے۔۔؟ آج بانی پی ٹی آئی کی طرف سے علی امین گنڈا پور کی تقریر کی حمایت اس بات کا ثبوت ہے کہ تقریر کا سارا سکرپٹ ذہنی انتشار سے بھرپور شخص کی ذہن کی عکاس تھی۔ اس میں اب کوئی دو رائے نہیں کہ بانی پی ٹی آئی ذہنی انتشار سے بھرپور، حدود و قیود سے آزاد، منتشر خیالات کا مالک انسان ہے جس کے نزدیک قانون یا آئین یا معاشرتی حدود کوئی معنی نہیں رکھتیں۔
میڈیا نمائندوں کی جانب سے یہ سوال کیا گیا کہ علی امین گنڈاپور کی تقریر پر تو پی ٹی آئی کے رہنما معافی مانگ رہے ہیں جس کے جواب میں بانی پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ جو معافی مانگ رہے ہیں وہ ڈرپوک اور بزدل ہیں اس کے اس جواب میں ایک بار پھر یہ بات ثابت ہو گئی کہ انکے بیانیے اور ان کی پارٹی رہنماؤں کے بیانیے میں اب فرق آچکا ہے اور دونوں کے درمیان خلیج وسیع ہوتی جا رہی ہے۔
بانی پی ٹی آئی نے میڈیا نمائندوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بلوچستان کے حوالے سے ہرزہ سرائی کہ بلوچستان آپ کے ہاتھ سے نکل چکا ہے انکا یہ بیان بانی پی ٹی آئی کا کم اور گولڈ سمتھ بیانیے کی تقلید زیادہ لگ رہا ہے۔ اس طرح کا بیان دے کر وہ بھارتی لابی کے ساتھ ساتھ صہیونی سہولت کاروں کو بھی خوش کرنے چاہتے ہیں۔
سیاسی حلقوں کے مطابق تمام حربوں کی ناکامی کے بعد اب بانی پی ٹی آئی ذہنی بدحواسی کا شکار ہو چکے ہیں اور پارٹی میں جاری انتشار، علیمہ خان اور بشریٰ بی بی کی چپقلش نے انہیں مزید ذہنی مریض بنا دیا ہے۔ انکے ذہنی مریض ہونے کا اس سے بڑاکیا ثبوت ہوگا کہ آئے روز میڈیا نمائندوں سے ہونے والی گفتگو میں انکی ذہنی پریشانی اور بیانات میں تضاد واضح نظر آتا ہے۔