سپریم کورٹ نے اسلام آباد کے مارگلہ نیشنل پارک میں موجود ریسٹورنٹس کی بندش کے خلاف نظرثانی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
مارگلہ نیشنل پارک میں موجود ریسٹورنٹس کی بندش کے خلاف نظرثانی درخواستوں پر سماعت مکمل ہوگئی اور سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ کوئی جھونپڑی بنالے تو وہ فوراً گرا دی جاتی ہے، چھوٹا سا کھوکھا بنانے کی اجازت ملی ، بڑے بڑے محل بنا لیے گئے، موسمیاتی تبدیلی سے ملک تباہ ہوگیا لیکن یہاں مقصد صرف پیسہ کمانا ہے ۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے نیشنل پارک میں ہرجگہ ریسٹورنٹ بن گئے تو لینڈسلائڈنگ سے اسلام آباد متاثر ہوسکتا ہے۔
چیف جسٹس اور نعیم بخاری کے درمیان گرما گرمی
دوران سماعت چیف جسٹس اور لامونتانا ریسٹورنٹ کے وکیل نعیم بخاری کے درمیان گرما گرمی بھی ہوئی۔
نعیم بخاری نے 1954 کے فیصلے کا حوالہ دے کر عدلیہ پر تنقید کی تو چیف جسٹس نے کہا ہماری پیدائش سے پہلے کے واقعات بتا کرہم پر انگلی نہ اٹھائیں، یہ بنیادی حقوق کا معاملہ ہے اور نیشنل پارک میں جانوروں کے حقوق ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ تھا پھر بھی آپ کمرشل سرگرمیاں کرتے رہے، آپ قوانین کی خلاف ورزی کرکے ریستوران چلاتے رہے اس پر نعیم بخاری بولے آپ سمجھتے ہیں اونچی آواز میں بولنے سے میں ڈر جاؤں گا تو ایسا نہیں ہوگا، سب جانتے ہیں ماضی میں کیا ہوتا رہا ؟ آپ نے بھٹو ریفرنس میں خود بھی سب کچھ لکھا ہے۔
اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے نعیم بخاری سے مکالمہ کیا کہ چلیں ہم نے اپنی غلطیاں مان لی ہیں آپ بھی مان لیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے وزارت دفاع کے ڈائریکٹر لیگل بریگیڈئیر ریٹائرڈ فلک نازکو اپنی فیملی کے حوالے سے بات کرنے سے روک دیا اور ریمارکس دیئے کہ لگتا ہے آپ اخبارات میں سرخیاں لگوانا چاہتے ہیں۔
عدالت عظمیٰ نے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا ور سماعت کے اختتام پر نعیم بخاری نے چیف جسٹس سے معذرت بھی کی۔