سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد بڑھانے سے متعلق ترامیمی بل سینیٹ میں پیش کر دیا گیا۔
پیر کو چیئرمین سید یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت ایوان بالا کا اجلاس ہوا جس میں سینیٹر عبدالقادرکی جانب سے سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد بارے ترمیمی بل 2024 پیش کیا گیا اور بعدازاں بل کو متعلقہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا۔
سینیٹر عبد القادر کا اظہار خیال
سینیٹر عبد القادر کا کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں اس وقت 53 ہزار سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں اور مقدمات لگوانے کیلئے ڈیڑھ دو سال لگ جاتے ہیں، آئینی کیسز بہت زیادہ سپریم کورٹ آ رہے ہیں جس پر لارجر بینچز بن جاتے ہیں جس کے باعث اربوں ٹیکسز والے مسائل دب جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے ہی ملک چلانے کیلئے ہزاروں ارب کا قرضہ لے رہے ہیں، ججزکی تعداد کم ہے آہستہ آہستہ آبادی بڑھ رہی ہے، بل منظورکیا جائے سپریم کورٹ میں مقدمات کی تعداد بڑھ رہی ہے۔
اپوزیشن کا احتجاج
ایوان میں بل پیش ہونے کے بعد اپوزیشن کی جانب سے نو نو کے نعرے لگائے گئے اور شدید احتجاج کیا گیا ۔
اپوزیشن رہنما اور پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ حکومت جوڈیشل سسٹم میں اصلاحات لائے تو ہم ساتھ دیں گے، افریقہ میں من پسند ججز کی تعداد بڑھانے کیلئے اسی طرح کی پریکٹس کی گئی، 7 ججز کے بجائے 2 ججز بڑھانے کیلئے ہم تیار ہیں۔
سینیٹرعلی ظفر کا کہنا تھا کہ 7 ججز بڑھانے کا کہا جارہا ہے ، یہ دیکھنا ہو گا 7 نمبر کہاں سے آیا، عبدالقادر صاحب کی قوم سے محبت بہت ہے لیکن وہ استعمال ہو رہے ہیں، ججز کی تعداد بڑھانے کا مطلب ’’ جوڈیشل کو ‘‘ ( بغاوت ) ہے، میں نے ایکسپوز کر دیا کہ ’’ جوڈیشل کو ‘‘ ہونے لگا ہے ۔
سینیٹر سیف اللہ ابڑو
سینیٹر سیف اللہ ابڑو کا کہنا تھا کہ مخصوص سیٹوں کا فیصلہ پی ٹی آئی کے حق میں آیا جس کے بعد ان کے پیٹ میں درد ہے، پہلے سپریم کورٹ کے فیصلے کی عزت تو کریں، آپ نے 13 ججز کی عزت نہیں کی 7 کو کونسی پگڑیاں پہنائیں گے۔
سیف اللہ ابڑو کا کہنا تھا کہ ہمارے لئے کینٹینرز لگائے گئے اور مولانا فضل الرحمان کو جلسے کی اجازت مل گئی ۔
ایمل ولی خان
عوامی نیشنل پارٹی ( اے این پی ) کے رہنما اور سینیٹر ایمل ولی خان کا کہنا تھا کہ پوری قوم کوپتہ ہے 7 ججز کی کس کو ضرورت ہے، سپریم کورٹ صرف ان کیسز کو اٹھاتی ہے جن سے ان کو کوریج ملے، سپریم کورٹ عوامی مسائل کے کیسز کو ترجیح نہیں دیتی، ججزکی تعداد بڑھائیں لیکن سپریم کورٹ میں نہیں لوئرکورٹس میں بڑھائیں۔
ایمل ولی خان کا کہنا تھا کہ ہائیکورٹ میں بھی ججز کی تعداد کو بڑھائیں، سپریم کورٹ سے آئینی اختیارات واپس لے کر آئینی عدالت بنانی چاہیے، آئینی معاملات اس آئینی عدالت میں جانے چاہئیں ۔
وزیر قانون کا اظہار خیال
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا بل پر رد عمل دیتے ہوئے کہنا تھا کہ قیدیوں کی 2017 کی اپیلیں زیر التوا ہیں، 24 سال عمر قید ہے جبکہ عمر قید کے قیدی نے 30 سال کی قید گزاری، زیر التوا کیسز کے باعث بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔
اعظم نذیرتارڑ کا کہنا تھا کہ میں نے کہا تھا کمیٹی کو ریفر کر کے بات کرلی جائے، ایک ڈرافٹ بنا کر لایا گیا ہے جسے پڑھے بغیر ہی احتجاج کیا جا رہا ہے، اس معاملے پر حکومت کی کوئی رائے نہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے وزارت قانون کو کریمنل لا ریفارمز کی ذمہ داری سونپی ہے، اگلے دو تین ہفتے میں اصلاحاتی پیکج لائیں گے ۔