سن 1996 کی پاک فوج کے جوانوں نے اپنی جان، مال، عزت اور آبرو داؤ پر لگا کر اپنے ملک پاکستان کی حفاظت کی اس جنگ کے دوران ہمارے کئی بہادر فوجیوں نے ملک کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا اور شہید ہوئے جبکہ جنگ کے دوران کئی سپاہی بہادری سے دشمن کیخلاف لڑے اورغازی ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔
یہ غازی یہ تیرے پُراسرار بندے جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دو نیم انکی ٹھوکر سے صحرا و دریا، سِمٹ کر پہاڑ انکی ہیبت سے رائی
شاعرِ مشرق علامہ اقبال نے غازیان وطن کے جس مرتبے،مقام اور بلند جذبے کا جو ذکر فرمایا وہ تمام خصوصیات سن 1965 کے غازیوں میں آج بھی من و عن دیکھنے کو ملتی ہیں۔
جنگِ ستمبر 1965 کی صورتحال کے متعلق غازیانِ پاک فوج سے اظہارِ خیال کا موقع ملا اور انہوں نے بتایا کہ کیسے انہوں نے اپنے جوانوں کو بڑی خوش اسلوبی سے لڑتے ہوئے دیکھا۔ ہماری عوام نے ہمارے حوصلے اتنے بڑھائے کہ ہم آگے بڑھتے چلے گئے اور بھارت منہ کی کھا کر بھا گ نکلا۔
غازیانِ پاک فوج کا کہنا ہے کہ آج بھی ہمارے اندر اتنا جذبہ ہے کہ دشمن کے علاقے میں جا کر ٹینک سے حملہ کر سکتے ہیں اوراُس کے علاقے پر قبضہ کر سکتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اتنا ایمان دیا ہے۔ آج بھی ان غازیوں کا جذبہ اسی طرح بلند ہے جب جنگِ ستمبر میں سی ایم ایچ لاہور میں آنے والے زخمیوں کو فرسٹ ایڈ دیتے تھے اور زخمیوں کے سروں سے چھرے نکالا کرتے تھے۔
غازیانِ جنگِ ستمبر بتاتے ہیں کہ بھارت کو ہم نے اتنا نقصان پہنچایا کہ وہاں رُک نہ سکا بلکہ اُس کو وہاں سے جان چُھڑانی مشکل ہو گئی، سن 1965 کی جنگ میں جوانوں اور آفیسرز میں جو جوش وجذبہ تھا وہ آج بھی قائم و دائم ہے۔ پو ری قوم آج بھی پاکستان کی افواج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اور ہم آج بھی دشمن کو ناکوں چنے چبواسکتے ہیں۔