بنگلہ دیش کی سابقہ وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے امریکہ پر سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں عہدے سے ہٹانا سینٹ مارٹن جزیرے سے متعلق گیم کا حصہ تھا۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق قریبی ساتھیوں کے ذریعے بتائے گئے ایک بیان میں سابقہ وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے الزام لگایا کہ امریکہ نے اسٹریٹجک لحاظ سے اہم جزیرے پر اپنا کنٹرول رکھنے کے لیے دباؤ ڈال کر بنگلہ دیش کے سیاسی منظر نامے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ہے۔
سینٹ مارٹن جزیرہ جو خلیج بنگال کے شمال مشرقی حصے میں واقع ہے، بنگلہ دیش کا واحد مرجانی چٹان والا جزیرہ ہےجو اقتصادی اور حکمت عملی دونوں لحاظ سے کافی اہمیت رکھتا ہے مقامی طور پر "Narikel Jinjira" یا Coconut Island کے نام سے جانا جاتا ہے۔
یہ جزیرہ نما کاکس بازاریکناف سے تقریباً 9 کلومیٹر جنوب میں اور میانمار کے شمال مغربی ساحل سے 8 کلومیٹر مغرب میں ہے،یہ جزیرہ تقریباً 5,500 افراد کی مقامی آبادی پر مشتمل ہےجن کا ذریعہ معاش ماہی گیری، چاول، ناریل کی کاشت اور سیاحت پر منحصر ہے۔
سابقہ وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے دعوے جزیرے کی جغرافیائی سیاسی اہمیت سے جڑے ہوئے ہیں شیخ حسینہ واجد نے کہا کہ امریکہ کا مقصد سینٹ مارٹن جزیرے پر ایک ایئربیس قائم کرنا ہےجس سے خلیج بنگال پر زیادہ اثر و رسوخ جمانا ہے ، جزیرے کی خودمختاری کے حوالے سے ان کا انکار ان کے سیاسی زوال کا باعث بنا ہے۔
سینٹ مارٹن جزیرے کی خودمختاری بنگلہ دیش اور میانمار کے درمیان ایک متنازعہ مسئلہ رہا ہےتنازعہ کو 2012 میں بین الاقوامی عدالت برائے قانون برائے سمندر (ITLOS) نے جزوی طور پر حل کیا، جس نے بنگلہ دیش کے علاقائی سمندر اور خصوصی اقتصادی زون کے اندر جزیرے کی حیثیت کی تصدیق بھی کی تھی۔
واضح رہے کہ کشیدگی 2018 میں دوبارہ شروع ہوئی جب میانمار کے اپ ڈیٹ کردہ نقشے میں اس جزیرے کو اس کے اپنے علاقے کے طور پر غلط طریقے سے دکھایا گیا میانمار نے بعد میں اس غلطی کو درست کیا اور اس جزیرے کو بنگلہ دیش کا حصہ ہونے کی تصدیق بھی کی تھی۔
قریبی ساتھیوں کے ذریعے بتائے گئے بیان میں کہا کہ اگر وہ اقتدار میں رہتیں تو صورت حال کافی زیادہ خونریزی کا باعث بن سکتی تھیں امریکہ نے مبینہ طور پر سیاسی فائدے کے لیے بحران سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔
شیخ حسینہ کے دعویٰ میں مزید الزام لگایا کہ امریکہ کا مقصد طلبہ کی زیرقیادت مظاہروں پر اثر انداز ہونا تھا جو بالآخر ان کے استعفیٰ پر ختم ہوا، اور دعویٰ کیا کہ یہ احتجاج خطے کو غیر مستحکم کرنے اور بنگلہ دیش اور میانمار کے کچھ حصوں کو ملا کر ایک نئی "عیسائی ریاست" بنانے کی وسیع حکمت عملی کا حصہ ہے۔
سابقہ وزیر اعظم نے مظاہروں کے دوران طلباء مظاہرین کے بارے میں اپنے تبصروں کے حوالے سے تنقیدوں کا بھی ازالہ کیا ہے،انہوں نے واضح کیا کہ ان کے ریمارکس، جنہیں توہین آمیز قرار دیا گیا، ان کی غلط تشریح کی گئی اور ان کا مقصد طلباء کو کمزور کرنا نہیں تھا بلکہ بدامنی کے وسیع تر سیاسی تناظر کو حل کرنا تھا۔
بنگلہ دیش کی سابقہ وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے اپنے بیان کے اختتام پر بنگلہ دیش کے عوام پر امید اور لچکدار رہنے کی تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ان کا استعفیٰ ایک عارضی دھچکا ہے اور عوامی لیگ بحران سے مزید مضبوط ہو کر ابھرے گی۔