چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا کہنا ہے کہ بشریٰ بی بی سے سوا سال تک تفتیش نہیں ہوئی،اب گرفتاری کی کیا ضرورت ہے، یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ایک کیس میں نکلے اور دوسرے میں گرفتار ہو۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں بشریٰ بی بی کے خلاف کیسز کی تفصیلات فراہمی کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس نےایس ایس پی آپریشنز راولپنڈی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا اگر آپ کو بشریٰ بی بی تفتیش کے لیے مطلوب تھیں تو پہلے انہیں طلب کیوں نہیں کیا۔ سوا سال تک تفتیش نہیں کی تو اب گرفتاری کی کیا ضرورت ہے۔
بشریٰ بی بی کی درخواست پر سماعت کے دوران اُن کے وکیل لطیف کھوسہ عدالت میں پیش ہوئے۔ طلبی پر راولپنڈٰ کے ایس ایس پی آپریشن کامران اصغر بھی پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کیا بشریٰ بی بی کو نو مئی کے مقدمات میں گرفتار کیا گیا ہے۔ ایس ایس پی آپریشنز نے بتایا کہ ابھی تک انہیں گرفتار نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے سوا سال ہوگیا، اب کہانی ختم ہوگئی۔ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ ایک کیس میں نکلے اور دوسرے میں گرفتار ہو۔اگرآپ کو بشریٰ بی بی تفتیش کے لیے مطلوب تھیں تو انہیں طلب کیوں نہیں کیا۔ بشریٰ بی بی جب گرفتار نہیں تھیں تب بھی پولیس نے انہیں طلب نہیں کیا۔ سوا سال تک پولیس نے تفتیش نہیں کی تواب گرفتاری کی کیا ضرورت ہے۔ بشریٰ بی بی گرفتار ہیں پولیس نے اُن سے پھر بھی تفتیش نہیں کی۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہم نے کسی بھی نئے مقدمے میں گرفتاری سے روکنے کی بھی استدعا کی ہے۔ ایس ایس پی آپریشنز نے بتایا کہ ہمیں کل پتہ چلا کہ انہوں نے انسداد دہشتگردی عدالت میں ضمانت کی درخواستیں دی ہیں۔ خصوصی عدالت کے جج کے رخصت پر ہونے پر سیشن عدالت نے ان کو ضمانت دی ہوئی ہے۔ ہمیں صرف ایک ضمانت کی کاپی ملی ہے مگر باقی کاپیاں نہیں آئیں۔
لطیف کھوسہ نے کہا پولیس نے بشریٰ بی بی کو اٹک کے مقدمے میں گرفتار کرنے کا کہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پیر سے میں دستیاب نہیں ہوں گا۔ عدالت نے کیس کی سماعت پیر تک کے لیے کسی بھی بینچ کے سامنے رکھنے کی ہدایت کردی۔ سماعت 12 اگست تک ملتوی کردی گئی۔