تحریر : محمد اکرم چوہدری
جماعت اسلامی مہنگی بجلی کے خلاف دھرنا دئیے ہوئے ہے، حکومت مظاہرین کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے۔ جماعت اسلامی کی قیادت عوام کے لیے بجلی سستی کروانا چاہتی ہے جو شاید حکومت کے بس میں نہیں ہے۔ حکومتی ٹیم مذاکرات تو کر رہی ہے لیکن کیا حکومت اس پوزیشن میں ہے کہ وہ ملک بھر میں شہریوں کے لیے بجلی سستی کر سکے۔
جماعت اسلامی اس حوالے سے شاباش کی مستحق ہے، جماعت کی قیادت کو یہ کریڈٹ ضرور دینا چاہیے کہ اس مشکل وقت اور سخت موسم میں وہ پاکستان کے لوگوں کی خاطر سڑکوں پر ہیں اور حقیقی مسائل پر سیاست کر رہے ہیں۔ یہی وہ سیاست ہے جس کی ضرورت ہے۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے لیے حکومت میں رہنا اور ہر وقت حکومت میں رہنا زیادہ اہم ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ عوامی مسائل پر سیاست نہیں ہوتی بلکہ سیاست اپنے مفادات کے لیے ہوتی ہے۔ آج لگ بھگ ساڑھے چوبیس کروڑ لوگوں کو بنیادی مسائل کا سامنا ہے لیکن قومی سیاسی جماعتوں کے لیے عوام کے بنیادی مسائل کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ان حالات میں جماعت اسلامی سڑکوں پر ہے۔ بجلی کے مسئلے پر جو ظلم عوام پر ہو رہا ہے عوام کے منتخب نمائندے اس پر خاموش کیسے رہ سکتے ہیں یہ وہ معمہ ہے جو حل ہونا چاہیے، کیوں آئی پی پیز معاہدے پارلیمنٹ میں زیر بحث نہیں آتے، کیوں یہ معاہدے عوام کے سامنے نہیں لائے جاتے، کیوں ان معاہدوں کا حصہ بننے والوں اور بنیادی غلطیاں کرنے والوں سے سوال جواب کیوں نہیں ہوتے۔ جماعت اسلامی کے ساتھ عوام پاکستان پارٹی بھی سراپا احتجاج ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 2015 سے 2024 تک بجلی کی قیمتوں میں تین سو پچاس فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ کیا اس دوران آمدن میں ایسا اضافہ ہوا ہے۔ بجلی کی قیمت بڑھنے زندگی گذارنے کی بنیادی اشیا کی قیمتوں میں بھی اسی تناسب سے اضافہ ہوا ہے کیا عام آدمی کی آمدن میں بھی ایسا ہی اضافہ ہوا ہے اگر نہیں ہوا تو اس کی ذمہ داری براہ راست حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطاء تارڑ کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی کے زیادہ تر مطالبات بجلی سے متعلق ہیں کوشش کریں گے اس مسئلے کو حل کر لیا جائے۔ میں حیران ہوں اس وقت بھی حکومت جماعت اسلامی اور شہریوں کو اندھیرے میں رکھنے کی کوشش کیوں کر رہی ہے کیونکہ بجلی کی وزارت جن کے پاس ہے وہ تو ہاتھ کھڑے کر چکے ہیں۔ وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری کے مطابق آئی پی پیز معاہدوں کو کسی صورت تبدیل نہیں کریں گے معاہدے یکطرفہ طور پر ختم کر کے ریکوڈک کی طرح نو سو ملین ڈالر کے جرمانے ادا نہیں کر سکتے۔
جناب اویس لغاری صاحب آپ یہ معاہدے ختم نہیں کر سکتے تو یہ ان معاہدوں کی وجہ سے جو اضافی بوجھ عام آدمی پر پڑ رہا ہے معاہدے کرنے والوں سے وصول کریں۔ جن لوگوں نے یہ معاہدے کیے ہیں انہیں پکڑیں یا ان کی جائیدادیں ضبط کریں یا ان لوگوں سے کہیں کہ وہ آئی پی پیز سے بات چیت کریں کیونکہ یہ سب مافیا کا حصہ ہیں ایک دوسرے کی باتیں مانتے ہیں۔ جن لوگوں نے ان غیر حقیقی معاہدوں سے فائدے اٹھائے ہیں ان سے کہیں اپنے آقاؤں سے بات کریں اور اس مسئلے کو حل کریں۔ کیا آپ کے سینے میں دل ہے بھی یا نہیں، کیا کوئی بھی شخص اپنے ذاتی کاروبار کے لیے ایسا معاہدہ کرے گا کہ اس کی فیکٹری میں مال آئے یا نہ آئے وہ پیسے دینے کا پابند ہو گا، مطلب جہاز اڑتا ہے اڑے، نہیں اڑتا نہ اڑے لیکن پیسے ادا کرنا ہوں گے۔ وفاقی وزیر صاحب کہتے ہیں امریکی ڈالر اگر دو ہزار پندرہ کے ریٹ پر رہتا تو کیپیسٹی ادائیگیاں اکیس سو ارب روپے کے بجائے آٹھ سو ارب روپے ہوتیں۔ یعنی ڈالر کی قیمت بڑھنے سے تیرہ سو ارب کا اضافی بوجھ عوام اٹھا رہی ہے یہ بوجھ معاہدے کرنے والوں پر کیوں نہ ڈالا جائے، کیا ظلم ہے کہ آٹھ سو ارب روپے صرف غلط معاہدوں کی وجہ سے ادا کیے جاتے رہیں تو ٹھیک ہے۔ کچھ تو خدا کا خوف کریں۔ حکومت لوگوں سے انکم ٹیکس تو لے رہی ہے اور اگر انکم ہی ختم ہو گئی تو کیا ہو گا، شہریوں کی انکم بڑھانے پر بھی تو کام کرنا ہے یا نہیں، لوگوں سے ٹیکس لینا ہے تو انہیں ٹیکس دینے کے قابل بھی تو بنائیں۔
دوسری طرف خبر یہ بھی ہے کہ پنجاب کابینہ کی سٹینڈنگ کمیٹی نے صوبے میں دیہی اور شہری علاقوں کے گھروں اور کاروباری مقامات پر کوڑا ٹیکس لگانے کی منظوری دے دی ہے۔ دیہی علاقوں میں پانچ مرلہ کے گھر پر دو سو، دس مرلہ سے ایک کنال کے گھر پر چار سو، دیہات میں چھوٹے کاروبار، دکانوں پر تین سو، درمیانے درجے کے کاروبار پر سات سو جبکہ بڑے کاروبار پر ایک ہزار روپے ماہانہ ٹیکس لگایا جائے گا۔ شہری آبادی میں پانچ مرلہ گھر پر تین سو، دس مرلہ سے ایک کنال کے گھر پر پانچ سو سے دو ہزار روپے اور ایک کنال سے بڑے گھر پر پانچ ہزار روپے ماہانہ ٹیکس لگایا جائے گا۔ حکومت کا سارا زور ٹیکس لگانے پر ہے لیکن قوم کو یہ کون بتائے گا کہ جو ٹیکس پہلے سے اکٹھا ہو رہا ہے وہ کہاں جا رہا ہے۔ پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے، پنجاب ملکی ترقی، معیشت کی بحالی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے، وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے والد صوبے کی وزارت اعلیٰ سے ملک کے وزیراعظم ایک سے زیادہ مرتبہ منتخب ہوئے ہیں ان کے چچا میاں شہباز شریف اس وقت بھی ملک کے وزیراعظم ہیں۔ صوبے کو بہتر انداز میں چلانے کے لیے اس سے زیادہ تجربہ کس کے پاس ہو گا۔
بلوچستان میں سکیورٹی فورسز پر حملے کا افسوسناک واقعہ پیش آیا ہے۔ یہ ملک میں تشدد کی فضا اور عدم برداشت کے تیزی سے بڑھتے ہوئے ماحول کو ظاہر کرتا ہے۔ ریاست کی رٹ کو قائم رہنا چاہیے۔ اس ماحول میں سیاسی قیادت کو ذاتی اختلافات کو بھلا دینا چاہیے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو رہا۔ اس وجہ سے نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ خبر کچھ یوں ہے کہ گودار میں پرتشدد ہجوم کی جانب سے سکیورٹی فورسز پر حملے کے نتیجے میں ایک سپاہی شہید جبکہ سولہ جوان زخمی ہوئے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق گوادر میں پرتشدد ہجوم نے سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں ایک سپاہی شہید ہوگیا ، تیس سالہ سپاہی شبیر بلوچ کا تعلق ضلع سبی سے تھا۔ پرتشدد مظاہرین کے بلا اشتعال حملوں میں ایک افسر سمیت سولہ جوان زخمی بھی ہوئے۔جوانوں پر حملہ نام نہاد بلوچ راجی مچی کی آڑ میں کیا گیا ، اشتعال انگیزی کے باوجود فورسز کی طرف سے انتہائی تحمل کا مظاہرہ کیا گیا۔ہجوم کی پر تشدد کارروائیاں ناقابل قبول ہیں اور ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق سوشل میڈیا پر جعلی تصاویر اور ویڈیوز کا استعمال کیا جارہا ہے، تمام شہریوں سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ پروپیگنڈے کا شکار نہ ہوں، بلوچستان کے امن کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔
ہر گذرتا دن ہمارے لیے ایک نئی مشکل لاتا ہے۔ لگ بھگ پچیس کروڑ لوگوں کے ملک کو اندرونی و بیرونی دشمنوں کا سامنا ہے۔ حکومت کو یہ طے کرنا پڑے گا کہ اس نے کیسے آگے بڑھنا ہے، جب ملک میں مہنگائی، بدامنی اور زندگی مشکل ہو گی تو زندگی کی قدر ختم ہوتی جائے گی حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر عام آدمی کی زندگی میں سہولت کے لیے کام کرنا چاہیے۔
آخر میں حکیم محمد ناصر کا کلام
ساغر کو تیرے نام کیا اور رو لیے
خود کو نذرِ جام کیا اور رو لیے
گْل پھر چراغِ شام کیا اور رو لیے
ہم نے یہ اہتمام کیا اور رو لیے
ہم نے سحر کو شام کیا اور رو لیے
یہ دن بھی تیرے نام کیا اور رو لیے
یوں بھی ملے ہیں اْن سے تصور میں بارہا
ہم نے انہیں سلام کیا اور رو لیے
اشکوں سے لکھ دیا ہے شبِ غم کا ماجرا
خط ہم نے یوں تمام کیا اور رو لیے
اپنی ہنسی بھی ہم نے اْڑائی ہے اس قدر
تیرا بھی احترام کیا اور رو لیے
دستک کی آج دل کو جسارت نہ ہو سکی
در سے ترے کلام کیا اور رو لیے
ان کے خطوط رکھ کے سرہانے شبِ فراق
قاصد کو پھر سلام کیا اور رو لیے
ناصر انہی کے حکم پہ چھوڑا ہے شہر کو
صحرا میں پھر قیام کیا اور رو لیے