طالبان نے امتیازی پالیسیوں کا سہارا لیتے ہوئے خواتین کو بنیادی حقوق سے بھی محروم کردیا ہے
2021 میں طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد افغان خواتین کیلئے سیاہ ترین باب کا آغاز ہواطالبان کی جانب سے خواتین پر سیاست سے بے دخلی، عوامی سرگرمیوں پر پابندی کے ساتھ ساتھ تعلیم اور کام کرنے پر بھی پابندیوں کو تین سال مکمل ہونے والے ہیں۔
حال ہی میں افغانستان کے نیشنل انٹرنس امتحان کے نتائج کا اعلان ہوا لیکن طالبان نے ایک بار پھر لڑکیوں کو امتحانات میں شرکت سے روک دیا۔
افغان خواتین کی جانب سے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔
افغان طالبان کی جانب سے خواتین مظاہرین پر تشدد کر کے انہیں کئی روز تک زیر حراست بھی رکھا جاتا ہے۔
طالبان ہر لحاظ سے خواتین کے حقوق کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن افغان خواتین اپنے حق کے لیے ڈٹی ہوئی ہیں
افغان خواتین کا کہنا ہے کہ ہمارے ارادے بہت مضبوط ہیں، طالبان حکومت ہمیں کمزور نہیں کر سکتی۔
افغان طلبہ کا کہنا ہے کہ تعلیم حاصل کرنا ہمارا بنیادی حق ہے اور یہ حق ہم سے کوئی نہیں چھین سکتا،2021 سے لےکراب تک طالبان نےتنقید کےڈر سےخواتین، انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں اور اختلاف رائے رکھنے والوں کی آواز کو دبایا ہے
طالبان بندوق کے زور پر مسلسل سکولوں اور یونیورسٹیوں کو خواتین کے لئے بند کرنے کی کوشش کر رہے ہیں
طالبان ہمیں پڑھائی اورکام کرنے سےاس لئے روک رہے ہیں کہ ہم طالبان کی حکومت کیخلاف آواز نہ اٹھائیں،جہاں افغان طالبان خواتین کے حقوق کو پامال کر نے کیلئے ہر حد پار کر رہے ہیں وہیں افغان خواتین کی جدو جہد مزید مضبوط ہوتی جا رہی ہے
طالبان کی متعدد پابندیوں کے باوجود افغان خواتین اپنے حقوق کے لئے سر گرم اور متحرک ہیں۔