سپریم کورٹ نے ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کالعدم قرار دینے کیخلاف اپیلوں پر سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔
جمعرات کو سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ نے ملٹری کورٹس میں سویلین ٹرائل کالعدم قرار دینے کیخلاف اپیلوں پر سماعت کی جس کے دوران سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی اور اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے۔
دوران سماعت عدالت نے وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث پر اعتراض مسترد کرتے ہوئے دلائل کی اجازت بھی دے دی جبکہ اٹارنی جنرل نے پھر یقین دہانی کرائی کہ ملزمان سے اہلخانہ کی ملاقاتیں کرائی جائیں گی۔
بینچ سربراہ جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ زیر حراست افراد کو گھر والوں سے کیوں نہیں ملوایا جا رہا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے ملاقاتوں کا سلسلہ رکنے کو تسلیم کرتے ہوئے یقین دہانی کرائی کہ ملزمان کو اہلخانہ سے ضرور ملوائیں گے۔
جسٹس جمال مندوخیل کے پوچھنے پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ملزمان کی جیلوں میں منتقلی میں کچھ قانونی مسائل ہیں، تاہم خصوصی عدالتوں میں جوڈیشل ریمارنڈ نہیں دیا جاتا ۔
جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ اٹارنی جنرل غلطی دکھائے بغیر بینچ سے نیا اور الگ فیصلہ چاہتے ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیٸے کہ اگر کیس اپیل میں آیا ہے تو پھر سب کچھ کھل گیا ہے جبکہ جسٹس شاہد وحید نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یہ نکتہ نظر جسٹس محمد علی مظہر کا ہوسکتا ہے میرا نہیں، اگر اپیل میں سب کچھ ہوسکتا ہے تو کیا ہم کیس ریمانڈ بیک بھی کرسکتے ہیں؟ ۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث روسٹرم پرآئے تو سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے اعتراض اٹھا دیا اور مؤقف اختیار کیا کہ وزارت پراٸیوٹ وکیل کی خدمات کیسے لے سکتی ہے ؟ تاہم، بینچ نے اعتراض مسترد کرتے ہوئے خواجہ حارث کو دلائل دینے کی اجازت دے دی ۔
عدالت نے خواجہ حارث سے پوچھا کہ کیا فرد جرم سے پہلے کیس ٹرانسفرہو سکتا ہے؟ ، کیس کے دائرہ اختیارکے حوالے سے بھی آگاہ کریں۔
بعدازاں عدالت عظمیٰ نے کیس کی مزید سماعت ججز کی دستیابی تک غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی۔
عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ بینچ کی دستیابی پر دوبارہ کیس سماعت کیلئے مقرر کیا جائے گا۔