وفاقی حکومت نے قومی سلامتی اور کسی بھی جرم کے خدشے کے تناظر میں انٹر سروسز انٹلیجنس (آئی ایس آئی) کو فون ٹیپ کرنے کی اجازت دے دی۔ نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا۔
نوٹیفکیشن کے مطابق آئی ایس آئی کو فون ریکارڈ کرنے کی اجازت پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ 1996 کی دفعہ 54 کے تحت دی گئی ہے۔ آئی ایس آئی کسی بھی ٹیلی کمیونیکیشن سسٹم کی ریکارڈنگ کر سکے گی۔
نوٹیفکیشن کے ذریعے کال ریکارڈنگ کے ساتھ میسجز اور کال ٹریس کرنے کا اختیار بھی دے دیا گیا۔ وزیراعظم کی منظوری سے آئی ایس آئی کے گریڈ 18 یا اس سے اوپر کے افسران کو یہ اختیار دیا گیا ہے۔ اعلامیے کے مطابق موبائل کال، واٹس ایپ کال، میسجز ودیگراپلی کیشنزکی ریکارڈنگ کی جاسکے گی۔
واضح رہے کہ 30 جون کو اسلام آبادہائیکورٹ کےجسٹس بابرستار نےسابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے اور بشریٰ بی بی آڈیو لیکس کیس کے فیصلے کے حکم نامے میں لکھا کہ قانون کےمطابق شہریوں کی کسی قسم کی سرویلنس غیرقانونی عمل ہے،سسٹم کےذریعے40لاکھ شہریوں کی سرویلنس کی ذمہ داری وفاقی حکومت پرہے،وزیراعظم اورکابینہ اس ماس سرویلنس کےاجتماعی اورانفرادی طورپرذمےدارہیں۔
عدالتی حکم نامہ میں کہا گیا کہ عدالت امیدکرتی ہےوزیراعظم انٹیلیجنس ایجنسیوں سےرپورٹس طلب کرکےمعاملہ کابینہ کےسامنےرکھیں گے،وزیراعظم لا فل مینیجمنٹ سسٹم سےمتعلق 6 ہفتوں میں اپنی رپورٹ عدالت میں جمع کرانےکے پابند ہوں گے،وزیراعظم بتائیں کہ کیا قانون و آئین کے برخلاف شہریوں کی سرویلنس جاری ہے؟
حکم نامہ میں مزید کہا گیا کہ وزیراعظم بتائیں کہ لا فل انٹرسیپشن منیجمنٹ سسٹم کی تنصیب اور ماس سرویلنس کا ذمہ دار کون ہے؟وزیراعظم بتائیں کہ سرویلنس سسٹم کا انچارج کون ہےجو شہریوں کی پرائیویسی کو متاثر کر رہا ہے،تمام ٹیلی کام کمپنیاں لا فل انٹرسیپشن مینیجمنٹ سسٹم سےمتعلق اپنی رپورٹس 5 جولائی تک جمع کرائیں۔