تحریر : محمد اکرم چوہدری
بجٹ پر شور ہو رہا ہے، یہاں تک کہ حکومت خود بھی تسلیم کر چکی ہے کہ بجٹ آئی ایم ایف کے کہنے پر بنایا گیا ہے یا آئی ایم ایف کے دباؤ پر بنایا گیا ہے، کچھ بھی کہیں بجٹ امپورٹڈ ہے اور امپورٹڈ چیزیں مہنگی ہوتی ہیں۔ سو یہ بجٹ مہنگائی کا طوفان لایا ہے، سیاسی زبان میں اسے سونامی بھی کہا جا سکتا ہے، سیاسی زبان میں اسے حکمرانوں کا ظلم بھی کہا جا سکتا ہے، سیاسی زبان میں اسے عوام دشمن بجٹ بھی کہا جا سکتا ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اس کے ذمہ دار سیاست دان ہی ہیں۔ گذشتہ پندرہ بیس برسوں کے دوران اقتدار جن کے پاس رہا وہ اس تباہی کے ذمہ دار ہیں ۔ جنہوں نے تباہی کی ہے سب ایک دوسرے کو الزام دے رہے ہیں درحقیقت تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر ملک کو یہاں تک پہنچایا ہے کہ لوگ آج بجلی کا بل دیکھ کر موت کی دعائیں مانگ رہے ہیں۔ عام آدمی کے لیے زندگی مشکل تر ہوتی جا رہی ہے، کسی کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا کہ وہ کیا کرے، کیا لوگ مہنگی بجلی اس لیے خریدیں کہ کسی وقت میں کسی حکمران نے آئی پی پیز کے ساتھ غلط معاہدے کیے، کیا لوگ مہنگی بجلی اس لیے خریدیں کہ صوبائی اسمبلیوں، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے بے معنی و بے مقصد اجلاسوں پر لاکھوں کروڑوں خرچ ہوتے رہیں۔ عام آدمی ٹیکس دیتا رہے ، حکمران اور سرکاری افسران مراعات لیتے رہیں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ عام آدمی دھکے کھاتا رہے اور حکمران طبقہ مزے کرتا رہے۔ اب بجٹ میں جو ظلم ڈھایا جا رہا ہے کیا ملک کے کروڑوں لوگ اس بوجھ کو اٹھانے کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ یقینا یہ ایک بہت مشکل کام ہے۔ لوگ ذہنی مریض بن رہے ہیں۔ بجلی کے بلوں نے کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی وفاقی بجٹ پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ "بجٹ میں ٹیکس آئی ایم ایف کے دباؤ پر لگایا گیا اور آئی ایم ایف پاکستان کی خودمختاری کے لیے خطرہ ہے۔ میرا شہر سیالکوٹ ایکسپورٹ کا مرکز ہے، ایکسپورٹرز پر جو ٹیکس لگایا گیا ہے اس سے ایف بی آر کی کرپٹ مافیا کو فائدہ ہو گا۔" اگر ملک کا وزیر دفاع بجٹ کو ملکی خودمختاری کے لیے خطرہ قرار دے تو پھر بہت زیادہ مثالوں کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اگر حکومتی اخراجات، مراعات پر بات کی جائے تو سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا بیان حکمرانوں کو آئینہ دکھانے کے لیے کافی ہے۔ سابق وزیراعظم کہتے ہیں کہ "حکومت کو عوام پر ٹیکس لگانے کے بجائے اپنے اخراجات کم کرنے چاہییں۔ حکومت اپنے اخراجات 25 فیصد بڑھائے گی، اگر عوام پر بوجھ ڈالنا تھا تو گھر سے شروع کرتے اور اپنے اخراجات کم کرتے، قرضہ لیکر 500 ارب روپے ایم این اے اور ایم پی ایز کو بانٹا جائیگا جو ماضی میں بھی غلط تھا، ان پیسوں میں سے ایک تہائی کرپشن کی نظر ہوجاتا ہے۔ ڈیزل اور ایل پی جی کی اسمگلنگ روک کر ٹیکس جمع کریں تو کوئی اور ٹیکس لینے کی ضرورت نا پڑے، ملک میں ایک طبقہ ہے جس کی آدھی آمدن حکومت لے جائے گی، ایسا دنیا میں وہاں ہوتا ہے جہاں پیدائش سے لیکر مرنے تک کی انسان کی تمام بنیادی ذمہ داریاں حکومت لیتی ہے۔ "
شاہد خاقان عباسی صرف ایک سیاستدان نہیں بلکہ وہ اس ملک میں ایک معروف کاروباری شخصیت کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے موجودہ بجٹ پر جو گفتگو کی ہے وہ در حقیقت پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے خلاف چارج شیٹ ہے یعنی اس ملک میں جو تنخواہ دار ہے وہ چالیس فیصد سے زائد ٹیکس ادا کرے گا اور حکومت جن کے مرہون منت ہے انہیں ٹیکس میں استشنی دے دیا جائے گا۔ اسمگلنگ روکنے میں ناکامی کی ذمہ دار حکومت ہے لیکن حکمرانوں کی اس ناکامی کا بوجھ بھی تنخواہ دار طبقہ ہی اٹھائے گا یعنی حکومت پانی کی لیکج روکنے میں ناکام ہے اور جو اپنی محنت کرکے کنویں میں سے پانی نکال کر بالٹی بھرے کھڑا ہے حکومت اس بالٹی سے پانی زبردستی نکال رہی ہے۔ حکومت مختلف اشیاء یا مصنوعات کی نا تو اسمگلنگ روک سکتی ہے نا ٹیکس وصول کر سکتی ہے اس کا بوجھ تنخواہ دار طبقے پر کیوں ڈالا جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف کو برا بھلا کہنا تو آسان ہے وزیر دفاع بھی اس کے اوپر الزام دھر رہے ہیں، وزیر اعظم اسمبلی میں کھڑے ہو کر بجٹ میں آئی ایم ایف کی مداخلت کا اعتراف کر رہے قوم کو وزیر اعظم کے اعترافی بیان اور وفاقی وزراء کے عالمی، مالیاتی ادارے پر الزامات سے کچھ لینا دینا نہیں۔ وفاقی کابینہ شاہد خاقان عباسی کے ان سوالات کے جواب قوم کے سامنے رکھے۔ وزیر خزانہ قوم کو بتائیں کہ وہ جس شدت کے ساتھ ٹیکس لینے کی بات کر رہے ہیں اس کے جواب میں ٹیکس ادا کرنے والوں کو کیا دے رہے ہیں، کیا وزیر خزانہ قوم کو بتائیں گے کہ مخصوص شعبوں کو ٹیکس میں رعایت دینے سے خزانے پر بڑھنے والا بوجھ کون اٹھائے گا۔ کیا وزیر خزانہ قوم کو بتا سکتے ہیں کہ حکومت نے اپنے اخراجات کم کیوں نہیں کیے، کیوں اربوں کے فنڈز اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کو جاری ہوں گے، کیا خون پسینے کی کمائی ٹیکس میں اس لیے جمع کروائی جائے گی کہ وفاقی و صوبائی وزراء اور اراکین اسمبلی اپنا سیاسی مستقبل محفوظ بنانے سکیں۔ کیا یہ تنخواہ دار طبقے پر حکومتی ظلم نہیں ہے۔ جو ٹیکس دیتا نہیں حکومت میں اس سے ٹیکس لینے کی طاقت نہیں اور جو ٹیکس دیتے ہیں ان پر مزید بوجھ کے سوا حکومت کے پاس کوئی پلان نہیں تو پھر یہ نظام حکومت کس کام کا ہے، کیا یہ عوام کے لیے ہے یا پھر یہ مخصوص طبقے کے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے ہے ۔ بجٹ کے بعد مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے اور بلوم برگ کے مطابق گذشتہ ماہ کے دوران پاکستان میں مہنگائی کی شرح رواں سال کے چھ ماہ بعد پہلی مرتبہ بڑھی۔ اس مہنگائی کی وجہ ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ ہے جب کہ روز مرہ اشیاء کے کنزیومر انڈیکس میں ایک سال کے مقابلے میں 12.57 فیصد اضافہ ہوا۔ یوٹیلیٹی سٹورز پر بھی کوئی ریلیف پیکج نہیں ہے تو کیا حکومت اپنے کم وسائل والے شہریوں کو یکسر بھلا چکی ہے؟؟؟
آخر میں کیفی اعظمی کا کلام
روح بے چین ہے، اک دل کی اذیّت کیا ہے؟
دل ہی شعلہ ہے تو یہ سوزِ محبّت کیا ہے؟
وہ مجھے بھول گئی، اِس کی شکایت کیا ہے؟
رنج تو یہ ہے کہ رو رو کے بھلایا ہو گا
وہ کہاں اور کہاں کاہشِ غم، سوزشِ جاں؟
اْس کی رنگین نظر اور نقوشِ حرماں؟
اْس کا احساسِ لطیف اور شکستِ ارماں؟
طعنہ زن ایک زمانہ نظر آیا ہو گا
جھک گئی ہو گی جواں سال امنگوں کی جبیں
مٹ گئی ہو گی للک، ڈوب گیا ہو گا یقیں
چھا گیا ہو گا دھواں، گھوم گئی ہو گی زمیں
اپنے پہلے ہی گھروندے کو جو ڈھایا ہو گا
دل نے ایسے بھی کچھ افسانے سنائے ہوں گے
اشک آنکھوں نے پِیے اور نہ بہائے ہوں گے
بند کمرے میں جو خط میرے جلائے ہوں گے
ایک اک حرف جبیں پر ابھر آیا ہو گا
اْس نے گھبرا کے نظر لاکھ بچائی ہو گی
مٹ کے اک نقش نے سو شکل دکھائی ہو گی
میز سے جب مری تصویر ہٹائی ہو گی
ہر طرف مجھ کو تڑپتا ہوا پایا ہو گا
بے محل چھیڑ پہ جذبات اْبل آئے ہوں گے
غم پشیمان تبسّم میں ڈھل آئے ہوں گے
نام پر میرے جب آنسو نکل آئے ہوں گے
سر نہ کاندھے سے سہیلی کے اٹھایا ہو گا
زلف ضد کر کے کسی نے جو بنائی ہو گی
روٹھے جلوؤں پہ خزاں اور بھی چھائی ہو گی
برق عشوؤں نے کئی دن نہ گرائی ہو گی
رنگ چہرے پہ کئی روز نہ آیا ہو گا