سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ تحریک انصاف ایک سال کا وقت لینے کے باوجود انٹراپارٹی انتخابات نہیں کروا سکی، ٹی آئی بار بار وقت مانگ رہی تھی، سارا معاملہ سپریم کورٹ پر مت ڈالیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 13 رکنی بینچ نے معاملے کی سماعت کی، بینچ میں جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، محمد علی مظہر، عائشہ ملک، اطہر من اللہ، سید حسن اظہر رضوی، شاہد وحید، عرفان سعادت خان اور نعیم اختر افغان فل کورٹ کا حصہ ہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے وکیل سکندر بشیر مہمند نے سپریم کورٹ آف پاکستا ن میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران تیسرے دن دلائل دیتے ہوئے کہا کہ چار سادہ سی گزارشات عدالت کے سامنے رکھوں گا،پی ٹی آئی امیدواروں نے جو پارٹی وابستگی سرٹیفکیٹ دیئے ان پر بیرسٹر گوہر کے بطور چئیرمین دستخط تھے، اس وقت پی ٹی آئی کا الیکشن کمیشن سے منظور شدہ پارٹی سٹرکچر موجود نہیں تھا، ٹکٹ جاری کرتے وقت تحریک انصاف کی کوئی قانونی تنظیم نہیں تھی، پارٹی تنظیم انٹرا پارٹی انتخابات درست نہ کرانے کی وجہ سے وجود نہیں رکھتی تھی۔
فاضل جج جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پارٹی ٹکٹ 22 دسمبر کو جاری شدہ ہیں، انٹراپارٹی انتخابات کیس کا فیصلہ 13 جنوری کا ہے تب تک بیرسٹر گوہر چیئرمین تھے، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے انٹراپارٹی انتخابات 23 دسمبر کو کالعدم قرار دے دئیے تھے، سکندربشیر کے جواب پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ 26 دسمبر کو معطل ہوچکا تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل الیکشن کمیشن سے پوچھا کہ یہ بتائیں غلطی کہاں سے ہوئی اور کس نے کی ہے ، کئی امیدواروں نے پارٹی وابستگی نہیں لکھی اسی وجہ سے امیدوار آزاد تصور ہوگا، اصل چیز پارٹی ٹکٹ ہے جو نہ ہونے پر امیدوار آزاد تصور ہوگا، جسٹس جمال مندوخیل کے جواب پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ اس معاملے پر میں اور آپ ایک پیج پر ہیں، سکندر بشیر کے جواب پر جسٹس مندو خیل نے کہا کہ پیچ پھاڑ دیں مجھے ایک پیج پر نہیں رہنا۔وکیل ای سی پی نے کہا کہ بیرسٹر گوہر کے جاری کردہ پارٹی ٹکٹس کی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ صاحبزادہ حامد رضا سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین تھے اور ہیں، صاحبزادہ حامد رضا خود کو پارٹی ٹکٹ جاری کر سکتے تھے، صاحبزادہ حامد رضا نے خود کو بھی پارٹی ٹکٹ جاری نہیں کیا،حامد رضا نے کاغذات نامزدگی میں لکھا کہ ان کا تعلق سنی اتحاد کونسل سے ہے جس کا پی ٹی آئی سے اتحاد ہے،حامد رضا نے پی ٹی آئی کا پارٹی ٹکٹ جمع کرایا تھا،سکندر بشیر کے دلائل پر جسٹس حسن اظہر رضوی نے سوال اٹھایا کہ ریٹرننگ افسر نے حامد رضا کے کاغذات منظور کر لئے تھے؟، وکیل ای سی پی نے جواب میں کہا کہ حامد رضا نے بیان حلفی میں ڈیکلریشن پی ٹی آئی نظریاتی کا جمع کرایا تھا۔
فاضل جج جسٹس شاہد وحید نے بشیر سکندر سے پوچھا کہ حامد رضا کو آزاد امیدوار قرار دینے سے پہلے کیا ان سے وضاحت مانگی گئی تھی؟ وکیل ای سی پی نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ حامد رضا نے درخواست دے کر شٹل کاک کا انتخابی نشان مانگا تھا،ریکارڈ میں پارٹی ٹکٹ نظریاتی کا نہیں بلکہ پی ٹی آئی کا ہے، جسٹس حسن اظہر رضوی نے پوچھا کہ کاغذات نامزدگی منظور ہونے کے بعد کاغذات نامزدگی میں تضاد پر کوئی نوٹس کیا گیا تھا؟ سکندر بشیرمہمند نے جواب دیا کہ ریٹرننگ افسر سکروٹنی میں صرف امیدوار کی اہلیت دیکھتا ہے انتخابی نشان کا معاملہ نہیں،حامد رضا خود کو سنی اتحاد کونسل کا امیدوار قرار نہیں دینا چاہتے تھے، حامد رضا ایک سے دوسری جماعت میں چھلانگیں لگاتے رہے۔
پی ٹی آئی کو انتخابی نشان مل جاتا، وکیل الیکشن کمیشن
وکیل الیکشن کمیشن نے عدالت سے کہا کہ 14 جنوری سے 7فروری تک تحریک انصاف انٹراپارٹی انتخابات کروا سکتی تھی،جسٹس منیب اختر نے وکیل سے پوچھا کہ انٹراپارٹی انتخابات ہوتے بھی تو کیا فرق پڑنا تھا؟ وکیل سکندر بشیر نے جواب میں کہا کہ پی ٹی آئی کو انتخابی نشان مل جاتا اور وہ انتخابات کیلئے اہل ہوجاتی، وکیل ای سی پی کے جواب میں جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اس صورتحال میں تو انتخابی شیڈول ہی ڈسٹرب ہوجاتا، جسٹس منیب اختر نے بھی سوال اٹھایا کہ پی ٹی آئی کو اتنی خاص رعایت کس قانون کے تحت ملنی تھی؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےکہا کہ پی ٹی آئی انتخابات کا معاملہ کئی سال سے الیکشن کمیشن میں زیرالتوا تھا، الیکشن کمیشن 13 جنوری کا حوالہ دے کر معاملہ سپریم کورٹ پر کیوں ڈال رہا ہے؟ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارٹی انتخابات تو ہوچکے تھے معاملہ ان کی قانونی حیثیت کا تھا،الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر مہمند نے دلائل مکمل کرتے ہوئے چیف جسٹس اور جسٹس منیب اختر کے سوالوں کے جواب میں کہا کہ آرٹیکل 218(3) کے تحت پی ٹی آئی کو رعایت دے سکتے تھے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے وکیل الیکشن کمیشن سے پوچھا کہ میں نے بطور ممبر بینچ ایک اضافی نوٹ لکھا ہے، میں نے الیکشن کمیشن سے کچھ معلومات مانگی تھیں، سکندر بشیر نے جواب میں کہا کہ میں نے وہ ابھی دیکھا نہیں ہے،جسٹس اطہر من اللہ نے وکیل کے جواب میں کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے کسی جماعت کی رجسٹریشن ختم نہیں کی تھی، غلط تشریح کی وجہ سے الیکشن کمیشن کا پورا مؤقف خراب ہوجاتا ہے، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ اس سوال کا جواب دے چکا ہوں، سنی اتحاد کونسل نے الیکشن لڑا نہ ان کا کوئی امیدوار کامیاب ہوا۔
جسٹس عائشہ ملک نے وکیل ای سی پی سے پوچھا کہ گزشتہ انتخابات میں بلوچستان عوامی پارٹی( باپ) کو کے پی میں مخصوص نشستیں کیسے دی گئی تھیں؟ سکندر بشیر نے جواب میں بتایا کہ باپ پارٹی کو نشستیں دینے کا فیصلہ قانون کے مطابق نہیں تھا،باپ پارٹی کو نشستیں دینے کے معاملے پر کوئی سماعت نہیں ہوئی تھی، جسٹس عائشہ ملک نے وکیل الیکشن کمیشن سے سوال پوچھا کہ الیکشن کمیشن ایک معاملے پر دو مختلف مؤقف کیسے لے سکتا ہے؟ سکندر مہمند نے جواب میں کہا کہ موجودہ الیکشن کمیشن نے تمام فریقین کو سن کر فیصلہ کیا ہے۔
کیا باپ پارٹی نے الیکشن میں حصہ لیا تھا؟ جسٹس جمال مندوخیل
جسٹس مندو خیل نےوکیل الیکشن کمیشن سے پوچھا کہ کیا باپ پارٹی نے الیکشن میں حصہ لیا تھا؟ کیا ایسی کوئی پابندی ہے کہ کسی بھی اسمبلی میں نشست ہو تو مخصوص سیٹیں مل سکتی ہیں، جسٹس منیب اختر نے سوال اٹھایا کہ کیا یہ درست ہے کہ آئین و قانون کے مطابق آٹھ فروری کو پانچ عام انتخابات ہوئے تھے؟ الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر مہمند نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہ ہر اسمبلی کیلئے الگ عام انتخابات ہوتے ہیں۔
چیف جسٹس نے وکیل الیکشن کمیشن کے دلائل پر ریمارکس دیئے کہ ایک وکیل نے ایک کیس میں صبح کچھ مؤقف اپنایا شام کو کچھ اور،مختلف مؤقف کا سوال ہونے پر وکیل نے کہا میں اب زیادہ سمجھدار ہوگیا ہوں۔
جے یو آئی نے الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل اپنا لئے،پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک پیش نہ ہوئے،معاون وکیل کا کہنا تھا کہ فاروق نائیک ناگزیر وجوہات پر آ نہیں سکے، چیف جسٹس نے معاون وکیل کے جواب میں کہا کہ آج کیس مکمل نہ ہوا تو فاروق نائیک کو سن لیں گے، آج کیس مکمل ہو گیا تو پھر آپ کی بدقسمتی ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخواہ نےسپریم کورٹ کو اپنے دلائل کی شروعات کرتے ہوئے کہا کہ میں نے دو متفرق درخواستیں خیبر پختونخوا کی جانب سے دائر کی ہیں،چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل کے پی سےپوچھا کہ آپ یہاں نوٹس پر پیش ہوئے یا فریق ہیں؟ ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے چیف جسٹس سے کہا کہ میں نوٹس پر ہوں اور دو متفرق درخواستیں بھی ہیں۔
ایڈوکیٹ جنرل کے پی سے جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا آپ درخواست گزار پی ٹی آئی کے دلائل اپنا رہے ہیں؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ نے جو کاغذ کا ٹکڑا دیا اس سے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ چیف جسٹس کے استفار پر ایڈوکیٹ جنرل کے پی بتایا کہ دکھانا یہ چاہتے ہیں کہ بی اے پی جماعت نے 2018 میں الیکشن نہیں لڑا تھا، باپ پارٹی کو اس کے باوجود مخصوص نشستیں آزاد امیدواروں کی شمولیت سے ملیں، چیف جسٹس نے کہا کہ پوری بات بتائیں کہ اس جماعت نے خیبرپختونخوا میں صرف الیکشن نہیں لڑا تھا ۔
ایڈوکیٹ جنرل کے پی کی گفتگو پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ کا پوائنٹ یہ ہے کہ الیکشن نہ لڑنے کے باوجود مخصوص نشستیں مل سکتی ہیں، ایڈووکیٹ جنرل نے جواب میں کہا جی مائی لارڈ میں یہی کہہ رہا ہوں،جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ نے مگر یہ کہا تو نہیں۔
الیکشن کمیشن نے عدالت کو صرف ایک فارم دکھایا ہے دوسرا نہیں، چیئرمین پی ٹی آئی
چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر سے جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ آپ سے پوچھا تھا کہ پارٹی ٹکٹ جمع کرایا تھا یا نہیں، چیئرمین پی ٹی آئی نے جواب میں کہا کہ بطور پارٹی امیدوار اور آزاد امیدوار بھی کاغذات جمع کرائے تھے، الیکشن کمیشن نے عدالت کو صرف ایک فارم دکھایا ہے دوسرا نہیں،عدالتی فیصلہ رات گیارہ بجے آیا ہمیں آزاد امیدوار شام چار بجے ہی قرار دیدیا گیا تھا، ایک امیدوار ایک حلقہ کیلئے چار کاغذات نامزدگی جمع کروا سکتا ہے، پارٹی ٹکٹ کے کئی خواہشمند ہوتے ہیں جسے ٹکٹ ملے وہی امیدوار تصور ہوتا ہے، الیکشن کمیشن نے عدالت سے کاغذات نامزدگی چھپائے ہیں۔
کامران مرتضیٰ نے بات کرتے ہوئے کہا کہ جے یو آئی کے منشور میں اقلیتوں کی پارٹی میں شمولیت کے حوالے سے مس پرنٹ ہوا تھا جس سے غلط فہمی پیدا ہوئی، اقلیتوں کے حوالے سے الگ سیکشن موجود ہے،کامران مرتضیٰ کی گفتگو پر جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمیشن نے درست کام کیا ہے؟ کامران مرتضیٰ نے جواب دیا کہ آئینی ادارے کے ساتھ ہیں،مسلم لیگ ن کے بیرسٹر حارث عظمت نے تحریری دلائل جمع کرا دیئے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایڈوکیٹ جنرل کے پی سے مکالمہ میں کہا کہ باپ پارٹی 2018 کے بعد آپ کی اتحادی تھی، انہیں اس وقت مخصوص نشستیں ملنے کا فائدہ آپ کو ہوا؟ اگر آپ پیچھے جائیں گے تو پھر اس وقت کے چیئرمین سینیٹ کا الیکشن بھی کھلے گا،عدالت نے مولوی اقبال حیدر کو دلائل سے روک دیا ،چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے الیکشن نہیں لڑا تو آپ ہمارے لئے کوئی نہیں ہیں، اپنا کیس چلانا ہو تو کالا کوٹ نہیں پہن سکتے۔
ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے کہا کہ متفرق درخواست میں تحریری دلائل جمع کروا چکا ہوں،الیکشن کمیشن کے کنڈکٹ سے مطمئن نہیں ہیں،ایڈووکیٹ جنرل کی گفتگو پر جسٹس جمال مندوخیل سوال پوچھا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں خیبرپختونخوا میں انتخابات درست نہیں ہوئے؟ ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے جواب میں کہا کہ فیصل صدیقی کے دلائل سے اتفاق کرتا ہوں۔