تحریر : محمد اکرم چوہدری
ایبسلوٹلی ناٹ سے شروع ہونے والی کہانی امریکی نمائندگان کی پاکستان میں عام انتخابات بارے قرارداد سے جی سرکار تک پہنچ چکی ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ امریکہ نے ہمیشہ دنیا کے مختلف ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی ہے۔ یہ کام وہاں کے متعصب نمائندگان صرف اور صرف اپنے مفادات کی خاطر کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو دنیا میں کبھی بہتا ہوا خون نظر نہیں آتا، ان لوگوں کو کبھی مقبوضہ کشمیر میں دہائیوں سے بہتا خون نظر نہیں آیا، ان متعصب ایوان نمائندگان کو فلسطین میں زخموں سے چور ، بھوک سے بلبلاتے بچے، تباہ ہوتی عمارتیں، خواتین کی چیخ و پکار، فلسطین کے بزرگوں کے تکلیف سے بھرے چہرے نظر نہیں آئے، نہ کبھی انہیں بنیادی انسانی حقوق یاد آئے نہ انہیں، بچوں کے حقوق یاد آئے نہ انہیں آزادی اظہار رائے کا خیال آیا لیکن ان ظالموں کو پاکستان میں ہونے والے انتخابات میں سب سے زیادہ تکلیف پہنچ رہی ہے۔ ایک طرف انسان قتل ہو رہے ہیں، اسرائیل کی ظالم فوج مسلسل کئی مہینوں سے فلسطینیوں پر بارود کی بارش کر رہی ہے، مقبوضہ کشمیر میں نریندر مودی نے لاکھوں مسلمانوں کے گھروں کو جیل میں بدل دیا ہے لیکن امریکی ایوان نمائندگان سوئے ہوئے ہیں۔ انہیں مقبوضہ کشمیر اور فلسطین میں شہید ہونے والے ہزاروں انسانوں سے زیادہ پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات میں زیادہ دلچسپی ہے۔ مرتے انسانوں کو بچانا اہمیت نہیں رکھتا بلکہ وہاں یہ سب مل کر مارنے والے کا ساتھ دے رہے ہیں، کتنی مرتبہ ان کا ضمیر جاگا ہو اور انہوں نے فلسطین اور کشمیر میں انسانیت کے قتل پر اسی شدت کے ساتھ آواز بلند کی ہو۔ سو میرے نزدیک تو یہ قرارداد کاغذ کے ایک ٹکڑے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی، اس قرارداد نے امریکی ایوان نمائندگان کے دوہرے معیار کو ایک مرتبہ پھر بے نقاب کیا ہے۔ دنیا کو یہ بتایا ہے کہ امریکہ کے لیے انسان صرف وہ ہے جس میں امریکہ کا مفاد ہے، امریکہ کے لیے اہمیت اس کی ہے جس میں اس کا مفاد ہے، اسے جانوروں کے حقوق بھی اس وقت یاد آئیں گے جب اس کا اپنا مفاد ہو گا ورنہ کوئی چیز معنی نہیں رکھتی۔
امریکی ایوان نمائندگان سے سات کے مقابلے میں تین سو اڑسٹھ ووٹوں سے منظور نان بائنڈنگ قراراداد میں کہا گیا ہے کہ آٹھ فروری کے الیکشن میں مداخلت اور بے ضابطگیوں کے دعوؤں کی آزادانہ اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کی جائیں۔ قرارداد کے مطابق پاکستان میں عوام کو جمہوری عمل میں شرکت سے روکنے کے لیے عوام کو دبانے کی کوششوں کی مذمت کرتے ہیں۔
جمہوری عمل میں حصہ لینے سے باز رکھنے کے لیے دھمکانے، ہراساں کرنے اور قید میں رکھنے کی بھی مذمت کی گئی ہے۔ انٹرنیٹ و ٹیلی کمیونیکیشن سہولیات کی فراہمی میں تعطل اور انسانی، سول اور سیاسی حقوق کی خلاف ورزی قابل مذمت ہے۔
ان ایوان نمائندگان کو قیدی نظر آتے ہیں لیکن توڑ پھوڑ کرنے، قومی املاک کو نقصان پہنچانے والوں کو آزادی ہونی چاہیے کیا امریکی نمائندگان اپنے ملک میں اس کی اجازت دیتے ہیں۔ کیا پرتشدد کارروائیوں کو احتجاج کا نام دے کر دبایا جا سکتا ہے، کیا امریکی ایوان نمائندگان اپنے ملک میں اس بدامنی کی اجازت دے سکتے ہیں، پاکستان میں نو مئی کو قانون ہاتھ میں لے کر ریاست کے خلاف کھڑے ہونے والے، بغاوت کرنے والے کسی رعایت کے مستحق ہیں۔ کیا یہ سیاسی قیدی ہیں اگر یہ سیاسی قیدی ہیں تو کشمیری رہنماؤں اور کشمیریوں کو قید کرنے والے بھارت سے یہ سوال کیوں نہیں پوچھا جاتا، بھارت تو صحافیوں کے لیے بھی خطرناک ملک بن چکا ہے لیکن نریندر مودی سے تو کوئی نہیں پوچھتا۔ ہماری قومی اسمبلی میں بھی ایک قرارداد پیش ہوئی ہے۔ امریکی ایوان نمائندگان کے اس عمل کی مخالفت کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں منظور ہونے والی قرارداد کی مخالفت انہوں نے کی جو گذشتہ کچھ عرصے سے پاکستان کے اندرونی معاملات میں امریکی مداخلت کے سب سے بڑے مخالف بنے ہوئے ہیں۔ کیا یہ قرارداد پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں ہے۔
قومی اسمبلی نے امریکی ایوان نمائندگان کی قرارداد کے خلاف قرارداد کثرت رائے سے منظور کی۔ قرار داد کے مطابق پاکستان کے انتخابات میں کروڑوں پاکستانیوں نے ووٹ دئیے ہیں اور امریکی قرارداد مکمل طور پر حقائق پر مبنی نہیں۔ پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے، پاکستان اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت برداشت نہیں کرے گا۔ امریکی ایوان نمائندگان کو غزہ اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر توجہ دینی چاہیے۔
ارکان نشستوں پر کھڑے ہو گئے اور سائفر سائفر اور شیم شیم کے نعرے لگائے جبکہ سنی اتحاد کونسل کے ارکان نے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ کر ایوان میں اچھال دیں۔
پاکستان میں سیاسی رہنماؤں اور سیاسی کارکنوں کو بھی یہ طے کرنا ہو گا کہ اگر کوئی بھی سیاسی جماعت یا اس جماعت کی مرکزی قیادت یا کسی بھی سطح کی قیادت ریاست مخالف بیانیے کو اپناتی ہے تو ایسے کسی بھی بیانیے کی حمایت نہیں کی جا سکتی، ایسے عمل میں شریک افراد وہ کوئی بھی ہوں ہر حال میں قومی مجرم ہیں۔ ہمیں اس رویے کی مذمت کرنے اور ایسے اقدامات کرنے والوں کی مرمت بھی کرنی چاہیے۔ ملک میں پائیدار امن، سیاسی و معاشی استحکام اور تعمیر و ترقی سخت فیصلوں کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ہمیں آگے بڑھنا ہے تو پھر ایسے معاملات میں بے رحم بھی ہونا پڑے گا۔
آخر میں اقبال ساجد کا کلام
سورج ہوں زندگی کی رمق چھوڑ جاؤں گا
میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جاؤں گا
تاریخ کربلائے سخن! دیکھنا کہ میں
خون جگر سے لکھ کے ورق چھوڑ جاؤں گا
اک روشنی کی موت مروں گا زمین پر
جینے کا اس جہان میں حق چھوڑ جاؤں گا
روئیں گے میری یاد میں مہر و مہ و نجوم
ان آئنوں میں عکس قلق چھوڑ جاؤں گا
وہ اوس کے درخت لگاؤں گا جا بہ جا
ہر بوند میں لہو کی رمق چھوڑ جاؤں گا
گزروں گا شہر سنگ سے جب آئنہ لیے
چہرے کھلے دریچوں میں فق چھوڑ جاؤں گا
پہنچوں گا صحن باغ میں شبنم رتوں کے ساتھ
سوکھے ہوئے گلوں میں عرق چھوڑ جاؤں گا
ہر سو لگیں گے مجھ سے صداقت کے اشتہار
ہر سو محبتوں کے سبق چھوڑ جاؤں گا
ساجد گلاب چال چلوں گا روش روش
دھرتی پہ گلستان شفق چھوڑ جاؤں گا