اسلام آباد ہائیکورٹ نے بانی پی ٹی آئی کیخلاف ٹیریان کیس کا تحریری فیصلہ جاری کردیا، تین رکنی بینچ کے دو ججز نے درخواست ناقابل سماعت قرار دے دی۔
تفصیلات کے مطابق تحریری فیصلے میں کہا گیاہے کہ چیف جسٹس عامرفاروق کی سربراہی میں لارجربینچ نے30مارچ2023کوسماعت کی،بینچ میں جسٹس ارباب محمد طاہر، جسٹس محسن اختر کیانی شامل تھے، وکلاء کیجانب سےدلائل کےبعددرخواست کےقابل سماعت ہونےپرفیصلہ محفوظ کیاگیا۔
فیصلے کے مطابق جسٹس محسن کیانی نےفیصلہ تحریرکیاجس سےجسٹس ارباب محمدطاہرنےبھی اتفاق کیا،لارجربینچ کے2اراکین کےفیصلےکےمطابق درخواست کوناقابل سماعت قراردیاگیاتھا۔
بانی پی ٹی آئی کے خلاف ٹیریان کیس کا تحریری فیصلہ جسٹس طارق محمود جہانگیری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے تحریر کیا ، فیصلےمیں سابق بینچ کےجسٹس محسن اخترکیانی،جسٹس ارباب طاہرکافیصلہ بھی شامل ہے ۔
تحریری فیصلے کے مطابق جسٹس محسن اخترکیانی نے چیف جسٹس کےسیکریٹری اوررجسٹرارکو نوٹ لکھے،جسٹس محسن اختر کیانی نے اپنے نوٹ میں فیصلےکوکازلسٹ میں شامل کرنےکی ہدایت کی،بظاہررجسٹرارکی جانب سے بغیر کسی معقول وجہ کے اس ہدایت پر عمل نہیں کیا گیا، سمجھ سے بالاترہےجسٹس کیانی کی بارہاہدایت کےباوجود فیصلےکوکاز لسٹ میں کیوں شامل نہ کیاگیا
فیصلہ کے مطابق جسٹس محسن اخترکیانی کی ہدایت پرفیصلےکواسلام آباد ہائیکورٹ کی ویب سائٹ پرجاری کیا گیا، جسٹس محسن اختر کیانی سے پوچھےبغیرفیصلےکو ویب سائٹ سے بھی ہٹا دیا گیا، چیف جسٹس عامرفاروق نے نوٹ لکھا جس میں انہوں نےصحافی کے ٹویٹ کا ذکر کیا، چیف جسٹس عامرفاروق نے صحافی کے ٹویٹ پر کیس سننے سے معذرت کرلی۔
چیف جسٹس عامرفاروق نے اپنے فیصلے میں درخواست کو قابل سماعت قرار دیا، چیف جسٹس نےبینچ توڑتے ہوئے درخواست پر نیا بینچ تشکیل دینےکی ہدایت جاری کی، چیف جسٹس کے اس اقدام نے بینچ کے اکثریتی فیصلے کو کالعدم کردیا۔
فیصلے میں کہا گیاہے کہ اس ساری صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے چند سوالات کے جواب ناگزیر ہیں، کیا ایک درخواست جس کو اکثریتی فیصلہ ناقابل سماعت قرار دے چکا ہے کو دوبارہ سنا جاسکتا ہے؟ جو اکثریتی فیصلہ دیا گیا اس کی قانونی حیثیت کیا ہوگی؟،کیا چیف جسٹس اپنے انتظامی اختیارات کو اختلاف رائے کو دبانے کا آلہ بنا سکتے ہیں؟
فیصلے کے مطابق کازلسٹ میں شامل نہ کرنے کے باوجود اکثریتی بینچ کافیصلہ،فیصلہ ہی کہلائے گا، کسی ایپلٹ فورم کی جانب سےکالعدم یامعطل قراردیئےجانےتک اکثریتی فیصلہ برقراررہےگا،عدالت کےسامنےایک فیصلہ شدہ معاملہ ہے،اس پریہی عدالت دوبارہ کارروائی نہیں کرسکتی۔