تحریر : محمد اکرم چوہدری
بھارت کا دعویٰ تو یہی ہے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے لیکن انڈیا میں مختلف حکومتوں میں یہ بات واضح رہی ہے کہ وہاں رنگ، نسل اور بالخصوص مذہب کو بنیاد بنا کر انسانوں سے مختلف برتاؤ کیا جاتا ہے۔ بالخصوص مسلمانوں اور سکھوں کو بہت نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ویسے تو نچلی ذات کے ہندوؤں کی زندگی بھی بہت مشکل ہے، عیسائیوں کو بھی ویسی آزادی حاصل نہیں ہے جو اونچی ذات کے ہندوؤں کو حاصل ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں بسنے والے سکھوں پر قاتلانہ حملے ہوتے ہیں اور ان حملوں کے پیچھے بھارتی حکومت نظر آتی ہے۔ کینیڈا میں تو سکھ رہنما کو قتل بھی کیا گیا، امریکہ میں بسنے والے سکھ رہنماؤں کو نشانہ بنانے کی کوششیں ہوتی رہتی ہیں۔ چونکہ دنیا کے بڑے ممالک بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتے، ایک بڑی مارکیٹ ان کی نظروں میں رہتی ہے، لگ بھگ سوا ارب لوگوں کا ملک ہے تو حقائق جاننے کے باوجود دنیا کے طاقتور ممالک بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آنکھیں بند کیے رکھتے ہیں۔ امریکہ کو پاکستان میں ہونے والے سازشی واقعات پر بھی بنیادی انسانی حقوق کا درد اٹھتا ہے لیکن بھارت، مقبوضہ کشمیر اور فلسطین میں شہید ہونے والے مسلمانوں کے حوالے سے امریکہ کو کبھی تکلیف نہیں پہنچی۔ وہ یہاں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو روکنے کے بجائے ظلم کرنے والے ممالک کا ساتھ دیتا ہے۔ کیا مقبوضہ کشمیر، فلسطین اور بھارت میں انسانوں پر ہونے والے ظلم کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ پاکستان میں بدامنی پھیلائی جاتی ہے، سرحدی خلاف ورزی ہوتی ہے، بھارت وسائل کا بے دریغ استعمال کرتا ہے، ہمارے کچھ لالچی لوگ کھلونا بنتے ہیں لیکن کیا دنیا یہ نہیں جانتی کہ عالمی امن کے لیے پاکستان نے کتنی قربانیاں دی ہیں۔ اقوام عالم کے لیے پاکستان کی کیا خدمات ہیں۔ بھارت عالمی امن کا دشمن ہے وہاں بنیادی انسانی حقوق کو شدید خطرات لاحق ہیں ۔ بھارت کے متعصب وزیراعظم نریندر مودی کے مخالف بھارتی صحافیوں کے بعد اب غیر ملکی صحافی بھی متعصب مودی حکومت کے نشانے پر آ گئے ہیں۔ حساس موضوعات اور آزادی حق پر بات کرنے والے صحافی نریندرا مودی حکومت کے نشانے پر ہیں۔ بھارتی حکومت نے فرانسیسی صحافی سبسٹین فارس کے ورک پرمٹ میں توسیع نہ دے کر ملک سے نکل جانے پر مجبور کر دیا۔بھارتی حکومت غیرملکی صحافیوں پردبائو ڈالنے کیلئے ہر ناجائز حربہ استعمال کر رہی ہے۔ فرانسیسی صحافی سبسٹین فارس نے بھارت میں تیرہ سال گزارے ہیں۔ اس کے باوجود بھارت نے انہیں ورک پرمٹ دینے سے انکار کیا۔ فرانسیسی صحافی کہتے ہیں کہ مجھے بھارت میں صحافتی ذمہ داریاں ادا کرنے کی مزید اجازت نہیں دی گئی صحافت پر لگنے والی اس پابندی سے مجھے بہت بڑا جھٹکا لگا ہے "بھارت کے عام انتخابات کی کوریج کرنے سے بھی مجھے روکا گیا بار ہا پوچھے جانے پر بھی ورک پرمٹ جاری نہ کرنے کی وجہ نہیں بتائی گئی،معاوضہ دئیے بغیر ہی مجھے اور میرے خاندان کو بھارت سے نکال دیا گیا۔ کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے بھارت میں فرانسیسی صحافی کو ورک پرمٹ نہ دینے پر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس سے قبل رواں سال جنوری میں ایک فرانسیسی صحافی وینیسا ڈوگناک کو بھی ملک بدر کرنیکی دھمکی دے کر بھارت میں کام کرنے کے حق سے محروم رکھا گیا تھا۔ اپریل 2024 میں آسٹریلوی صحافی آوانی ڈیاس کو بھی ویزہ نہ دینے کی آڑ میں بھارت سے بے دخل کیا جا چکا ہے۔ پہلے ہی بھارت عالمی پریس فریڈم انڈیکس میں 180 ممالک کے نمبر سے گر کر 159 ویں نمبر پر آ چکا ہے بھارت میں آزادی صحافت خطروں اور حملوں کی زد میں ہے جس پر عالمی میڈیا مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔
بھارت کی نام نہاد جمہوریت کا ایک چہرہ یہ بھی ہے جس بارے سب جانتے ہیں لیکن بات نہیں کی جاتی۔ بھارت کی سیاست میں مسلمان قیادت نریندر مودی کی مسلم دشمن پالیسیوں پر آواز بلند کرتی رہتی ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کی ایک توانا آواز اسد الدین اویسی ہیں انہوں لوک سبھا میں حلف اٹھاتے ہوئے ناصرف بھارت میں بی جے پی کے متعصب رویے کے خلاف آواز بلند کی بلکہ وہیں انہوں نے فلسطین کے مظلوموں کا مقدمہ بھی دنیا کے سامنے رکھا ہے۔ ریاست تلنگانہ سے منتخب ہونے والے اسد الدین اویسی نے لوک سبھا کی رکنیت کا حلف اٹھاتے ہوئے جے فلسطین اور اللہ اکبر کے نعرے لگائے ۔ اسد الدین اویسی جب ڈائس کی جانب بڑھنے لگے تو ایوان میں جے شری رام کے نعرے لگائے گئے۔ لوک سبھا کے رکن بھارتی مسلمانوں کے حقوق کی توانا آواز اسد الدین اویسی نے اردو میں حلف پڑھا اور آخر میں ’جے بھیم، جے میم، جے تلنگانہ، جے فلسطین، تکبیر اللہ اکبر‘ کہا۔
’جے بھیم، جے میم‘ کا نعرہ ان سیاسی جماعتوں کی جانب سے لگایا جاتا ہے جو سمجھتی ہیں کہ بھارت میں دلتوں اور مسلمانوں کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔
اسد الدین اویسی کو ڈائس کی جانب جاتا دیکھ کر جے شری رام کے نعرے لگانے والے متعصب بی جے پی حکمران اتحاد نے اسد الدین اویسی کو سخت الفاظ میں تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ کئی اراکین نے ان نعروں کو خلاف آئین بھی قرار دیا ہے۔ تاہم اسد الدین اویسی نے ان کے نعروں کس خلاف آئین قرار دینے والوں سے آئین کی شق بتانے کا مطالبہ کر دیا ہے ۔ واضح رہے لوک سبھا کے سپیکر نے اسد الدین اویسی کی جانب سے لگائے جانے والے نعروں کو ایوان کی کارروائی سے حذف کروا دیا گیا۔
دوسری طرف لوک سبھا میں دس سال سے خالی اپوزیشن لیڈر کا عہدہ راہول گاندھی کو مل گیا ہے۔ بھارتی پارلیمنٹ میں کانگریس رہنما راہول گاندھی کو اپوزیشن کا پارلیمانی لیڈر مقرر کر دیا گیا ہے۔
راہول گاندھی پارلیمنٹ میں بھارتی عوام کی مضبوط آواز ہوں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ حکومت ہر وقت جوابدہ رہے۔ بھارت میں اپوزیشن لیڈر کو کابینہ کے رکن کا درجہ حاصل ہوتا ہے، اس کے علاوہ اپوزیشن لیڈر چیف الیکشن کمشنرز، الیکشن کمشنرز اور سی بی آئی ڈائریکٹر کو منتخب کرنے والے پینل میں بھی شامل ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ بھارت میں اپوزیشن لیڈر کو کابینہ کے رکن کا درجہ حاصل ہوتا ہے، اس کے علاوہ اپوزیشن لیڈر چیف الیکشن کمشنرز، الیکشن کمشنرز اور سی بی ا?ئی ڈائریکٹر کو منتخب کرنے والے پینل میں بھی شامل ہوتا ہے۔
آخر میں احمد فراز کا کلام
آنکھوں کو زخم دل کو گریباں کیے ہوئے
ہیں یاد اب تلک تیرے احساں کیے ہوئے
ہر بار دل نے ایک نئی داستاں کہی
ہر بار تیرے نام کو عنواں کیے ہوئے
تجدیدِ عشق کیا ہو کہ برسوں گزر گئے
تجھ سے کوئی سخن بھی میری جاں کیے ہوئے
اب تجھ سے کیا گلہ ہو کہ اک عمر گزر گئی
ہم کو بھی قصدِ کوچہِ جاناں کیے ہوئے
دل سے ہوئی ہے پھر ترے بارے میں گفتگو
تر آنسوئوں سے دیدہ و داماں کیے ہوئے
جی مانتا نہیں ہے کہ ہم بھی بھلا سکیں
تیری طرح سے وعدہ پیماں کیے ہوئے
ہم وہ کہ تجھ کو شعر میں تصویر کر دیا
صورت گرانِ شہر کو حیران کیے ہوئے
اے عشق ہم سے اور بھی ہوں گے زمانے میں
اچھے بھلے گھروں کو بیاباں کیے ہوئے
کچھ نامراد وہ ہیں کہ پھرتے ہیں کوبکو
دل کو کسی فقیر کا داماں کیے ہوئے
بازار سرد تھا نہ خریدار کم نظر
ہم خود تھے اپنے آپ کو ارزاں کیے ہوئے
وعدہ کیا تھا اس نے کسی شام کا کبھی
ہم آج تک ہیں گھر میں چراغاں کیے ہوئے