تشدد کے استعمال کیلئے ہندوستانی فوج کو اپنی حکومت کی جانب سے کھلا ہاتھ دیا گیا ہے جسے تحریک آزادی کو کچلنے کے حربے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، انسانی حقوق کی تنظیموں اور بین الاقوامی این جی اوز کے مطابق بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں تشدد کو ایک پالیسی کے طور پر استعمال کرتی ہے جس میں ہزاروں شہری انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔
ہندوستانی فوج تشدد کے مختلف طریقوں کو استعمال کرتی ہے جس میں جنسی تشدد جیسا کہ عصمت دری اور بدفعلی، واٹر بورڈنگ، جسم کے اعضاء کو گرم اشیاء سے جلانا، قید تنہائی، اور جنسی اعضاء کو بجلی کا جھٹکا لگانا شامل ہیں۔ایک جامع رپورٹ "Torture: Indian State’s Instrument of Control in Indian Administered Jammu and Kashmir" کے مطابق تشدد کا شکار ہونے والے 70 فیصد افراد عام شہری ہیں، اور 11 فیصد تشدد کے دوران یا اس کے نتیجے میں ہلاک ہو جاتے ہیں، مسلح افواج کو دیے گئے قانونی، سیاسی اور اخلاقی استثنیٰ کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے کسی بھی معاملے میں ایک بھی مقدمہ نہیں چلایا گیا۔
یہ امر بھی تشویشناک ہے کہ ریاست کے تمام ادارے چاہے وہ مقننہ ہوں، ایگزیکٹو ہوں، عدلیہ ہوں اور مسلح افواج، سب کے سب تشدد کی کاروائیوں میں شریک ہیں، 5 اگست 2019 سے پہلے اور بعد میں گرفتار کیے گئے ہزاروں کشمیری تہاڑ جیسی بھارت کی بدنام زمانہ جیلوں میں بند ہیں، بھارت نے کل جماعتی حریت کانفرنس کی اعلیٰ قیادت، عالمی سطح پر تسلیم شدہ انسانی حقوق کے کارکنوں، پیشہ ور افراد اور صحافیوں سمیت تقریباً 10,000 کشمیریوں کو غیر قانونی طور پر اغوا کیا ہے۔
بھارتی ایجنسیوں نے جعلی مقدمات درج کر رکھے ہیں اور ان مقدمات کو ثابت کرنے کے لیے ابھی تک انڈین کینگرو کورٹس میں ایک بھی ثبوت پیش نہیں کیا گیا، محمد یاسین ملک، مسرت عالم بھٹ، شبیر احمد شاہ، نعیم احمد خان، آسیہ اندرابی اور دیگر سمیت درجنوں اعلیٰ درجے کے سیاسی رہنماؤں کو ان کے گھروں سے اٹھا کر بھارت کی جیلوں میں بھیج دیا گیا۔
کشمیری رہنما محمد یاسین ملک کو بھارتی NIA کی طرف سے دائر کیے گئے ایک مشکوک اور سیاسی طور پر محرک مقدمے میں سزا سنانا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بھارت کی حکومت کشمیریوں کی جائز آوازوں کو خاموش کرنے کے لیے عدلیہ کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہےیہ بات کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ محمد یاسین ملک اور دیگر کشمیری رہنماؤں کو صرف کشمیریوں کے لیے آواز اٹھانے پر سزا دی جا رہی ہے۔بھارتی ریاست تشدد کے معاملے میں امتیازی سلوک نہیں کرتی، خواتین اور نابالغوں کو بھی اس کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
مقبوضہ کشمیر کی پوری آبادی کو محاصرے اور تلاشی جیسی اجتماعی سزاؤں کا بھی نشانہ بنایا گیا ہے، جس کے دوران مار پیٹ اور جنسی تشدد ایک عام بات ہے، 2015 میں ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز کی شائع کردہ ایک تحقیق کے مطابق کشمیری آبادی کا 19 فیصد پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر کا شکار ہے، بھارت 1997 میں تشدد کے خلاف اقوام متحدہ کے کنونشن پر دستخط کر چکا ہے، لیکن اس نے آج تک اس معاہدے کی توثیق نہیں کی۔