تحریر : محمد اکرم چوہدری
پاکستان میں معاشی عدم استحکام کی ایک وجہ سیاسی استحکام ہے، سرمایہ کاری کے راستے میں رکاوٹ بھی سیاسی عدم استحکام ہے۔ یہ سیاسی عدم استحکام سیاسی جماعتوں کی ناقص پالیسیوں اور کمزور طرز حکومت سمیت ذاتی مفادات کو ترجیح دینے کی وجہ سے ہے۔ سیاسی قیادت ذاتی مفادات کو ہمیشہ ترجیح دیتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ قومی مفاد اہم مسائل میں کہیں بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ سیاسی قیادت کی طرف سے ذاتی مفادات کو ترجیح دینے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ پاکستان برسوں دہشت گردوں سے لڑتا آیا ہے ان دنوں بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ ملک کے مخصوص علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں ہر دوسرے دن قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی شہادت کا سننے کو ملتا ہے، ہر دوسرے دن دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر حملوں اور ہلاکت کی خبریں بھی آتی ہیں۔ فوجی جوان پیارے وطن کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کی جنگ شہادت کے رتبے پر فائز ہوتے ہیں، رینجرز اور پولیس اہلکار بھی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، نہ ہی یہ کارروائیاں رات کے اندھیرے میں ہوتی ہیں اور کسی کو کانوں کان ان کی خبر نہیں ہوتی۔ پاکستان میں بچہ بچہ جانتا ہے کہ ملک میں امن عمل کو تباہ کرنے کے لیے پاکستان دشمن طاقتیں وسائل کا بے دریغ استعمال کرتی ہیں، اندرونی طور پر بھٹکے ہوئے اور بیرونی دشمن مل کر پاکستان کے امن کو نقصان پہنچانے کے لیے متحرک ہیں۔ ہمارے امن کے دشمن اندرونی بھی ہیں اور بیرونی بھی ہیں اور ان کے خلاف ہونے والی کارروائیوں سے سیاسی قیادت بھی بخوبی واقف ہے۔ ہر روز شہیدوں کے جنازے اٹھانا کوئی معمولی بات تو نہیں، معصوم اور نہتے شہریوں کو نشانہ بنتے دیکھنا، اپنے ملک کے انفراسٹرکچر کو تباہ ہوتے دیکھنا کس حد تک تکلیف دہ ہے یہ بیان کرنا مشکل ہے۔ ان حالات میں بھی اگر دہشتگردوں کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کے لیے کوئی حکمت عملی ترتیب دی جائے اور سیاسی قیادت اس پر متحد و متفق نہ ہو، سیاسی قیادت یہ تسلیم کرے کہ گیم چینجر منصوبے کے لیے سب سے بڑا خطرہ دہشت گردی ہے پھر اس دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے کوئی کام شروع کیا جا رہا ہو اور سیاسی قیادت اس کی مخالفت شروع کر دے تو اس کا کیا مطلب ہو گا۔ دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے لئے اب آپریشن عزم استحکام شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ سیاسی قیادت اس معاملے پر بھی متحد نہیں ہے۔ یعنی دہشت گردوں کا راستہ نہ روکا جائے، وہ ہمارے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرتے رہیں، ہمارے فوجیوں، افسروں اور معصوم شہریوں کی جانوں سے کھیلنے والوں کو آزادی دی جائے ان کا راستہ نہ روکا جائے، ان کے ٹھکانوں کو تباہ نہ کیا جائے، ان ظالموں کی گردنوں کو نہ دبوچا جائے۔ سیاسی قیادت یہ چاہتی ہے کہ ملک میں ہر جگہ دہشتگردوں کا راج ہو۔ اگر ان امن دشمنوں کا راستہ نہیں روکا جاتا تو کیا یہ دہائیوں سے جاری قربانیوں اور شہداء کے خون سے ناانصافی نہیں ہو گی۔ افسوس اس چیز کا ہے کہ نمایاں سیاست دان بھی دہشت گردوں کا نقطہ نظر بیان کر رہے ہیں۔ اگر ملک میں کام کرنے والے غیر ملکی انجینیئرز اور انویسٹرز کو نشانہ بنایا جائے دہشت گرد غیر ملکیوں کی جانوں سے بھی کھیلنے لگیں تو اسکا مطلب ہے کہ وہ پاکستان کی ترقی اور امن کے دشمن ہیں تو کیا ان کیخلاف کارروائی نہیں ہونی چاہیے، کیا انہیں ٹھکانے لگانے کا سلسلہ شروع نہیں ہونا چاہیے۔ حکومت کو اس سلسلے میں کوئی نرمی نہیں دکھانی چاہیے، ریاست کو اس سلسلے میں بے رحمانہ فیصلوں کی ضرورت ہے، شرپسندوں کی طرف سے، دہشتگردوں کی طرف پاکستان کے نہتے شہریوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ روکنے اور پائیدار امن کے لیے دہشتگردوں کو چن چن کر ختم کرنے کی حکمت عملی اختیار کرنا ہو گی۔ آپریشن عزم استحکام پر ہماری سیاسی قیادت کے خیالات کچھ یوں ہیں۔
بلوچستان کے وزیر اعلیٰ میر سرفراز بگٹی کہتے ہیں کہ آپریشن عزم استحکام کی سب سے زیادہ ضرورت بلوچستان میں ہے۔ پاکستان کے دیگر علاقوں میں مذہب کے نام پر انسرجنسی ہے لیکن بلوچستان میں تو بڑی انسرجنسی ہے۔ بہکاوے میں آکر پہاڑوں پر گئے عام بلوچوں کو ایک مرتبہ پھر دعوت دیتا ہوں کہ وہ آئیں پرامن بلوچستان کے تحت انہیں گلے لگائیں گے لیکن رٹ آف اسٹیٹ چیلنج کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن ہو گا۔
وزیر دفاع خواجہ آصف کہتے ہیں کہ ایپکس کمیٹی میں وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین نے آپریشن کی مکمل حمایت کی۔ ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے دوران وزیراعلیٰ کے پی نے کسی موقع پر مخالفت نہیں کی، اس میٹنگ کی کوئی ریکارڈنگ ہوئی تو میڈیا کو دیں گے۔پی ٹی آئی سینیٹ اجلاس میں بھی آپریشن عزم استحکام کی مخالفت کر دی ہے۔
شبلی فراز کہتے ہیں کہ آپریشن عزم استحکام نارمل سے ہٹ کر نظر آتا ہے، استحکام تب آئے گا جب آئین و قانون کی بالادستی ہوگی، فری اینڈ فیئر الیکشن ہوں گے تو استحکام آئے گا۔
مسلم لیگ ن کے رہنما سینیٹر طلال چوہدری نے کہا ہے کہ خیبر پختونخوا میں پچھلے 12 برسوں سے پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور سب سے زیادہ دہشتگردی یہیں سے نکلتی ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ وزیراعلیٰ ہونے کے ناطے بلیک میل کرلے گا تو وہ غلط فہمی کا شکار ہے۔ آپریشن عزم استحکام کا فیصلہ چاروں وزرائے اعلیٰ اور تمام اداروں کے سربراہوں کی مشاورت سے کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کی صدارت کرتے ہوئے " آپریشن عزم استحکام" کی منظوری دی تھی جس میں وزیراعظم و وفاقی کابینہ کے علاوہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر اور ملک کے چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ بھی موجود تھے۔
وزیر اعظم آفس کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق سینیچر کو اعلان کردہ کا نام عزم استحکام رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ بڑے پیمانے پر کسی ایسے فوجی آپریشن پر غور نہیں کیا جا رہا ہے، غلطی سے اسکا موازنہ گزشتہ مسلح آپریشنز جیسے ضرب عضب،راہ نجات وغیرہ سے کیا جا رہا ہے، گزشتہ مسلح آپریشنزمیں ریاست کی رٹ کوچیلنج کرنے والے دہشتگردوں کو ہلاک کیا گیا تھا۔ ان کارروائیوں میں مقامی آبادی کی نقل مکانی،دہشتگردی کی عفریت کے خاتمے کی ضرورت تھی،اس وقت ملک میں ایسے کوئی نو گو ایریاز یا دہشتگردوں کے ٹھکانے نہیں ہیں، گزشتہ آپریشنز سے دہشتگردوں کی منظم کارروائیوں اور صلاحیت کو شکست دی جا چکی ہے،بڑے پیمانے پر کسی ایسے فوجی آپریشن پر غور نہیں کیا جا رہا ہے۔ عزم استحکام پائیدار امن کیلئے سیکیورٹی اداروں کے تعاون کا قومی وژن ہے، آپریشن کامقصد نظرثانی شدہ قومی ایکشن پلان کے نفاذ میں نئی روح اور جذبہ پیدا کرنا ہے، عزمِ استحکام کامقصد انٹیلی جنس بنیادپرمسلح کارروائیوں کو مزید متحرک کرنا ہے، مقصد دہشتگردوں کی باقیات کی ناپاک موجودگی، دہشتگرد گٹھ جوڑ ختم کرنا ہے۔"
وزیراعظم آفس کے اعلامیہ کو اپنی جگہ رکھا جائے لیکن سیاسی جماعتوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ متحد ہو کر ملکی مسائل حل کرنے کی طرف بڑھیں۔ کیا امن اس ملک کی سب سے بڑی ضرورت نہیں، کیا ہمارے بزرگوں، جوانوں اور بچوں کا حق نہیں کہ وہ پرامن اور ترقی یافتہ ملک کے شہری بنیں، کیا سیاسی قیادت کی یہ ذمہ داری نہیں کہ وہ اس ملک کے کروڑوں لوگوں کے بہتر مستقبل کے لیے صرف حصول اقتدار کی سیاست کا کھیل ختم کرے۔
آخر میں ابن انشاء کا کلام
کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرا ترا
ہم بھی وہیں موجود تھے ہم سے بھی سب پوچھا کیے
ہم ہنس دئیے ہم چپ رہے منظور تھا پردہ ترا
اس شہر میں کس سے ملیں ہم سے تو چھوٹیں محفلیں
ہر شخص تیرا نام لے ہر شخص دیوانا ترا
کوچے کو تیرے چھوڑ کر جوگی ہی بن جائیں مگر
جنگل ترے پربت ترے بستی تری صحرا ترا
ہم اور رسم بندگی آشفتگی افتادگی
احسان ہے کیا کیا ترا اے حسن بے پروا ترا
دو اشک جانے کس لیے پلکوں پہ آ کر ٹک گئے
الطاف کی بارش تری اکرام کا دریا ترا
اے بے دریغ و بے اماں ہم نے کبھی کی ہے فغاں
ہم کو تری وحشت سہی ہم کو سہی سودا ترا
ہم پر یہ سختی کی نظر ہم ہیں فقیر رہ گزر
رستہ کبھی روکا ترا دامن کبھی تھاما ترا
ہاں ہاں تری صورت حسیں لیکن تو ایسا بھی نہیں
اک شخص کے اشعار سے شہرہ ہوا کیا کیا ترا
بے درد سننی ہو تو چل کہتا ہے کیا اچھی غزل
عاشق ترا رسوا ترا شاعر ترا انشاء ترا