کرکٹ فیملی میں جب جب نوزائیدہ ٹیم کی آمد ہوئی اسے کرکٹ بے بی کہا گیا،لیکن ان بے بیز کو شفقت ملی نہ محبت بلکہ جس نے جب چاہا خوب رُلایا،بعض بے بیز کو پیروں پر کھڑے ہونے میں کئی سال لگے ،بعض برسوں بعد بھی نومولود کی مانند خالی ہاتھ پاؤں چلاتی رہیں ۔لیکن ورلڈکپ دو ہزارتئیس میں افغانستان نے انگلینڈ اور پاکستان کو ہرایا تو لکھنے والوں نے لکھا"کرکٹ بے بی بڑی ہوگئی" یہ وہ بے بی جس کےکانوں نے اذان بعد میں دھماکوں کی گونج پہلے سنی ،پہلی سانس کے ساتھ ہی بارود کی بو سے پالا پڑا،پوری طرح آنکھ کھولی تو خود کو سلگتی وادیوں میں پایا، جسے خوراک،صحت تعلیم سمیت تمام بنیادی ضروریات کے لیے دوسروں کی طرف دیکھنا پڑا ۔مگر ایک طرف پاکستان، دوسری طرف بھارت ہو تو کرکٹ سے دوستی کوئی انوکھی بات نہیں۔پھر جلاوطنی کے دنوں میں افغان شہریوں نے پاکستان میں سرچھپائے ، ،کراچی سے پشاور تک ایک ہی مشترکہ مشغلہ تھا ۔ کرکٹ ۔ خربوزے کو دیکھ کر خربوزے نے رنگ پکڑا افغان شہری بھی کرکٹ سے دل لگا بیٹھے ۔
یہ شوق اپنے ساتھ افغانستان بھی لے گئے۔ابتدائی برسوں میں افغان کرکٹرز نے پاکستان کے ڈومیسٹک ایونٹس میں باقائدگی سے حصہ لیا، انٹرنیشنل کرکٹ میں انٹری کے بعد بھی افغان ٹیم پر حالات مہربان نہ ہوئے، نہ اچھے گراؤنڈز نہ ٹریننگ اور کوچنگ کی سہولت، نہ پڑوسی ٹیموں کی طرح پیسے کی فراوانی ۔پھر ملکی حالات کی وجہ سے انٹرنیشنل کرکٹ میں تنہائی ۔ ٹیسٹ اسٹیٹس کو کئی سال گزرنے کے بعد بھی کسی ٹیم نے افغانستان کا رخ نہیں کیا، نہ افغانستان کو بیرون ممالک میں زیادہ مواقع ملے۔ لیکن ٹیلنٹ لگن ،اور خود اعتمادی وہ ہتھیار تھے جو وسائل اور مسائل کا عدم توازن کا توڑ ثابت ہوئے لیکن "ٹیلنٹ کو عزت دو" کا فارمولا نہ ہوتا تو ساری مشق بے معنی تھی، اسی طرح بڑے فیصلے کرنے کا دل گردہ نہ ہوتا تو آج افغانستان کرکٹ کی عالمی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں نہیں ڈال سکتا تھا۔
پاکستان افغانستان کی سرحدیں تو ملتی ہی لیکن سوچ نہیں ملتی ،بارڈر کے اُدھر کرکٹ پھل پھول رہی ہے، اِس پار ناپسندیدہ فیصلے ، ٹیلنٹ اور میرٹ کا قتل عام کرکٹ کے لیے دیمک بن چکا ہے۔ افغانستان کے پاس آئی پی ایل جیسا پلیٹ فارم ہے نہ پی ایس ایل جیسی چکا چوند ، افغانستان کی لیگ میں شرکت پر بھی کوئی غیرملکی آمادہ نہیں ، افغانستان کے کھلاڑی شارجہ میں تیاریاں کرتے رہے یا بھارت میں ۔ انٹرنیشنل کرکٹ سے برسوں کی وابستگی کے بعد بھی تاحال اپنے ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کا خواب اب تک حقیقت نہیں بن سکا ،ان حالات کے باوجود افغانستان کے پاس وہ ستارے ہیں جن کا پیچھا پوری دنیا کرتی ہے ،غیرملکی لیگز افغان کرکٹرز کو ہاتھوں ہاتھ لیتی ہیں،،جو ملک افغان ٹیم سے سیریز کھیلنے پر تیار نہیں وہ بھی ان کی اہلیت کے قائل ہیں ،،کوئی لیگ افغان کھلاڑیوں کے بغیر ممکن نہیں ،چاہے آئی پی ایل ہو ،پی ایس ایل ہو یا بگ بیش، افغان کھلاڑیوں کی کارکردگی بولتی ہے ،اسی لیے ریکنگ کی دوڑ میں بھی افغان کرکٹرز نمایاں دکھائی دیتے ہیں ، بنگلادیش ، آئرلینڈ ،اسکاٹ لینڈ ،نیدرلینڈ اوربعض دیگرممالک نے انٹرنیشنل کرکٹ میں قدم رکھا تو انہیں منظم ڈومیسٹک سسٹم بھی میسر تھا ، انفرااسٹرکچر اور دیگرلوازمات بھی، ملکی سلامتی ، معیشت اور گورننس جیسے مسائل کا بھی سامنا نہیں تھا.
اسی طرح ،بعض ممالک کے پاس وہ کھلاڑی بھی تھے جو دیگر ممالک کی طرف سے انٹرنیشنل کرکٹ کا تجربہ رکھتے تھے ،لیکن کئی انٹرنیشنل ایونٹس کھیلنے کے بعد بھی وہ ٹیمیں کرکٹ کی عالمی طاقتوں میں جگہ نہیں بنا سکیں جبکہ افغانستان نے کم تجربے ، لاتعداد مسائل اورمحدود وسائل کے ساتھ وہ مقام پالیا جو کسی کے وہم وگمان میں نہیں تھا۔ ایسا نہیں کہ افغانستان نے آتے ہی جھنڈے گاڑدیے ،بلاشبہ بڑی ٹیموں نے کئی بار پنچنگ بیگ بنایا لیکن آج انہیں ٹیموں کو افغانستان سے کھیلتے ہوئے چوکنا رہنا پڑتا ہے کہ جہاں ذرا سی چوک ہوئی سمجھیں کہانی ختم ۔ افغانستان کا ورلڈکپ سیمی فائنل کھیلنا ان ٹیموں کےلیے آئینہ ہے جنہوں نے آج تک افغانستان کے سامنے "نولفٹ " کا بورڈ لگائے رکھا ،ان کی بے مثال کامیابی ان ممالک کے منہ پر طمانچہ ہے جو افغانستان کے ساتھ طے شدہ میچز سے بھی مُکر گئے، اسی طرح افغانستان کی دھواں دار پرفارمنس پاکستان کرکٹ کو جھنجوڑنے یا آنکھیں کھولنے کےلیے کافی ہے کہ وہ ہماری ڈومیسٹک کرکٹ سے سیکھ کر کہاں سے کہاں پہنچ گئے ، ہمیں اسی سسٹم سے چھیڑ چھاڑ نے کہاں سے کہاں پہنچادیا ۔ افغانستان کی لاجواب کارکردگی ، کابل میں جیت کا جشن اور دنیا بھر میں افغان ہیروز کے چرچےدنیا کے لیے کھلا پیغام ہیں کہ سیکھیں مٹی کے میدانوں سے سونا کیسے نکلتا ہے ،،ساتھ ہی یہ بھی جانیے کہ افغان سرزمین صرف پوست نہیں کرکٹرز بھی پیدا کرتی ہے ۔