ملک بھر میں معیشت کی بہتری کیلئے جاری اقدامات کے بعد نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کیخلاف بھی آپریشن کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک ایسی ایک لاکھ سے زائد گاڑیاں پولیس کے پاس باضابطہ رجسٹر کی گئی ہیں، جنہیں ریگولرائز کیا جائے گا جبکہ ان کے علاوہ بھی 2 سے 3 لاکھ گاڑیاں بغیر رجسٹریشن کے چل رہی ہیں، اس عمل سے سرکاری خزانے میں 20 ارب روپے سے زائد کا ریونیو آنے کا امکان ہے۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور دیگر سرکاری اداروں کے ذرائع سے ملنے والی معلومات کے مطابق نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کیخلاف آپریشن کا فیصلہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے حالیہ دورۂ پشاور کے دوران کیا گیا، جس کے بعد متعلقہ اداروں نے ملک میں غیرقانونی چینل سے داخل ہونیوالی گاڑیوں کا ڈیٹا نکال لیا ہے۔
ان ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر وہ تمام گاڑیاں جو پہلے سے ایک طریقۂ کار کے تحت متعلقہ تھانوں کے پاس رجسٹر کی جاچکی ہیں، انہیں کسٹم نیٹ میں لاکر ریگولرائز کیا جاتا ہے تو اس سے قریبا 20 ارب روپے ملنے کی توقع ہے، آپریشن کے دوران ایف بی آر کی ٹیموں کو قانون نافذ کرنیوالے اداروں کا تعاون بھی حاصل ہوگا۔
ان ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ سال 2018ء تک تھانوں میں پولیس کے پاس درج ہونیوالی ان رجسٹر گاڑیوں کے بعد بھی قریباً دو سے 3 لاکھ مزید گاڑیاں بھی بغیر کسٹم ادا کئے پاکستان میں داخل ہوئیں جنہیں اس آپریشن کے دوران حکومتی تحویل میں لیا جاسکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق آپریشن کے دوران نقصان سے بچنے کیلئے پولیس کے پاس ان رجسٹرڈ شدہ گاڑیوں کے مالکان کیلئے 2 آپشنز ہیں کہ کسٹم ادا نہ کرنے کی صورت میں وہ اپنی گاڑی حکومت کے حوالے کردیں یا مقررہ کسٹم ادا کرکے اسے ریگولرائز کرلیں جبکہ وہ گاڑیاں جو سال 208ء کے بعد پاکستان لائی گئیں اور ابھی تک پولیس کے پاس رجسٹر بھی نہیں ہوئیں ان کیلئے گاڑیاں حکومتی حراست میں لینے کے علاوہ کوئی پالیسی نہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ان نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے کسٹم کی ادائیگی کی صورت میں ملنے والے اربوں روپے کے علاوہ بھی سالانہ ایکسائز ٹیکس کی مد میں بڑی رقوم خزانے میں آئیں گی۔
اس حوالے سے شمالی وزیرستان میں بھی مقامی عمائدین نے اس نمائندے کو بتایا کہ ان کے ہاں بھی ضلع میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کو حکومت کے پاس رجسٹر کرنے کے اعلانات کئے گئے ہیں۔
اس کاروبار سے وابستہ بعض ڈیلرز نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ نان کسٹم پیڈ گاڑیاں جاپان اور دوبئی سے افغانستان اور وہاں سے بلوچستان کے راستے پاکستان میں لائی جاتی ہیں جو یہاں سے ایران کی سرحد کے قریب سے ہوتی ہوئی کوئٹہ اور ژوب پہنچتی ہیں، وزیرستان تک لانے کیلئے ایک لاکھ روپے سے زائد فی گاڑی لئے جاتے ہیں جو وزیرستان سے بنوں اور میانوالی کے راستے مالاکنڈ بھی لائی جاتی ہیں۔
یاد رہے کہ مالاکنڈ اور سابقہ فاٹا کے اضلاع میں ایسی گاڑیاں چلتی ہیں، جنہیں پاکستان کے بندوبستی علاقوں میں لانے کی اجازت نہیں ہوتی ہے۔