طالبان کی جانب سے انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزیاں سنگین صورتحال اختیار کرگئیں۔
2021 میں طالبان کے افغانستان پرغاصبانہ قبضے کے بعد سے انسانی حقوق کے سیاہ ترین باب کا آغاز ہوا،طالبان اورآئی ایس کے پی جیسے دہشتگرد گروہوں نےافغانستان کی عوام پر ظلم و جبرکی ہر حد پارکردی،طالبان نے عورتوں پر بےجا پابندیوں سے انکی زندگی اجیرن کردی۔
طالبان کی جانب سےخواتین اورلڑکیوں کو نشانہ بنانےوالے 50 سےزائد جابرانہ احکامات جاری کیےگئے جن میں نقل و حرکت،اظہار رائے، روزگار، سیاسی اور عوامی نمائندگی، تعلیم اورصحت کی دیکھ بھال تک رسائی کو محدود کرنا شامل ہیں
طالبان حکام خواتین کے ساتھ سنگین امتیازی سلوک اور ظلم و ستم کے مرتکب ہیں, افغانستان میں طالبان کی مرضی کے خلاف لباس پہننے پر بھی خواتین کو گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے
افغانستان میں خواتین کو ٹارگٹ کلنگ،جبری گمشدگیوں، غیر مواصلاتی حراست، حملوں اور ہراساں کیے جانے کا سامنا کرنا پڑا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کےانسانی حقوق کے وفد کےمطابق اگست 2021 سےمئی 2023 کے دوران 4 ہزار سےزائد شہری اسلامی ریاست خراسان کےحملوں میں جاں بحق ہوچکے ہیں
مساجد اوردیگر مذاہب کی عبادت گاہوں پر دہشتگردانہ حملوں کےنتیجے میں 1218 ہلاکتیں رونما ہوئیں،اسلامی ریاست خراسان کی جانب سے نسلی اور مذہبی اقلیتی برادریوں کے افراد کو ماورائےعدالت گرفتاریوں،تشدد،سرعام پھانسی اورملک بدری پر مجبورکیا گیا۔
طالبان نےصحافیوں،انسانی حقوق کے کارکنان اورگزشتہ حکومت سے منسلک افراد کےماورائے عدالت قتل اور گرفتاریاں کیں اور دوران حراست انہیں شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔
اقوام متحدہ کے افغانستان مشن نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے 1600 سے زائد کیسز رپورٹ کیےجن میں غیر انسانی سلوک اور جسمانی تشدد شامل ہیں۔
افغانستان کے ریاستی اثاثےمنجمند ہونے کے باعث عوام انتہائی سنگین انسانی بحران کا سامنا کر رہے ہے
افغانستان کی بگڑتی صورتحال کےپیش نظرطالبان کو فوری طور پر اپنی کارکردگی کوبہتربنانے کی ضرورت ہے،طالبان کی اولین ترجیح خطے میں دہشتگردی کا فروغ نہیں بلکہ افغانستان کی عوام بحالی اور بھلائی ہونی چاہیے
رپورٹ میں اقوام متحدہ سےطالبان سے جواب طلب کرنےکا مطالبہ بھی کیا گیا ہے ،سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ کیا طالبان اپنی بدترین کارکردگی اورغیرانسانی پالیسیوں پرنظر ثانی کرنے پرتیارہونگےیا اپنی روش برقرار رکھتے ہوئے عوام کو ظلم و تشدد کا نشانہ بناتے رہینگے؟