تحریر : محمد اکرم چوہدری
عالمی عدالت انصاف نے دنیا میں انصاف، برابری، امن، آزادی اظہار اور بنیادی حقوق کے علمبرداروں کو امتحان میں ڈال دیا ہے۔ انصاف کی عالمی عدالت نے اسرائیل کو رفح میں فوجی آپریشن روکنے کا حکم دے دیا ہے۔ جنوبی افریقہ کی درخواست پر فیصلہ عالمی عدالت انصاف کے جسٹس نواف سلام نے پڑھ کر سنایا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اسرائیل انصاف کی عالمی عدالت کے اس فیصلے پر عمل کرتا ہے یا نہیں، ویسے ابتدائی طور پر عالمی طاقتوں کے لاڈلے اسرائیل نے عالمی عدالت انصاف کا یہ فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ رفح میں اسرائیلی فوج کی بربریت کو دیکھتے ہوئے، مسلمانوں کی نسل کشی کو دیکھتے ہوئے، انسانیت کا خون دیکھتے ہوئے جنوبی افریقہ نے اس قتل عام کو رکوانے کے لیے عالمی عدالت انصاف میں درخواست دائر کی تھی۔ اس درخواست پر ہونے والی سماعت کے بعد اسرائیل کو فلسطین میں فوجی آپریشن روکنے کا حکم جاری کیا گیا ہے۔ یہ واضح رہے کہ انصاف کی عالمی عدالت سے یہ فیصلہ بہت واضح فرق سے سنایا ہے۔ پندرہ میں سے تیرہ ججوں نے اسرائیلی فوج کو مظالم روکنے کا حکم جاری کیا ہے جب کہ دو معزز ججوں نے اس حوالے سے اختلاف کیا ہے۔ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج کو غزہ کے علاقے رفح میں فوجی کارروائیاں فوری طور پر روکنی ہوں گی،غزہ پٹی کے شہری انتہائی تشویشناک حالات سے گذر رہے ہیں۔ عالمی عدالت انصاف نے فیصلے میں یہ بھی کہا ہے کہ اسرائیل فوری طور پر رفح کی بارڈر کراسنگ کو کھولے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جانوروں کے حقوق کے لیے بھی چیخ و پکار کرنے والے مغربی ممالک اور دنیا کے بڑے ممالک جو ہر وقت بنیادی حقوق کا راگ بھی الاپتے ہیں۔ یہاں تک کہ جانوروں کے ساتھ برا سلوک کرنے پر بھی ان کے ممالک میں سزائیں ہو جاتی ہیں، یہ وہ ممالک ہیں جو دنیا میں کسی بھی جگہ ظلم ہو رہا ہو آواز بلند کرتے ہیں شرط یہ ہے کہ یہ ظلم ان کی مرضی کے خلاف ہو، شرط یہ ہے کہ اس ظلم میں ان کا مفاد نہ ہو، یا یہ خود اس ظلم سے فائدہ نہ لے رہے ہوں، اگر کسی بھی جگہ بہنے والا خون ان دوہرے معیار رکھنے والے ممالک کی مرضی سے بہے تو انہیں فرق نہیں پڑتا۔ یہ سب متحد ہو کر خون بہانے والے کا ساتھ دیتے ہیں جیسا کہ فلسطین میں ہو رہا ہے، مظلوم فلسطینیوں کا خون بہہ رہا ہے، امریکہ اور اس کے ساتھی ممالک ناصرف اس معاملے میں خاموش ہیں بلکہ وہ ظالم اسرائیلی افواج کی حمایت کر رہے ہیں۔
عالمی عدالت انصاف نے فیصلے میں لکھا ہے کہ رفح میں فوجی آپریشن سے انتہائی افسوسناک انسانی سانحہ جنم لے سکتا ہے۔ اسرائیل ایک ماہ کے دوران غزہ کی پٹی میں صورتحال بہتربنانے کے اقدامات کی رپورٹ عدالت میں پیش کرے۔ اسرائیل بین الاقوامی تفتیشی ٹیم کے ارکان کو غزہ پٹی میں داخل ہونے کی اجازت دے۔
یاد رہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس بھی ایک موقع پر ہاتھ کھڑے کر چکے ہیں یعنی اقوام متحدہ بھی اس معاملے میں بے بسی کا اظہار کر چکی ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے کہ وہ ادارہ جو دنیا میں مسائل ختم کروانے، امن کے قیام کو یقینی بنانے، قوانین اور قواعد و ضوابط پر عمل کروانے کا ذمہ دار ہے وہ ادارہ بھی ہاتھ کھڑے کر دے کہ فلسطین میں نہتے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم پر کچھ نہیں کیا جا سکتا تو کیا یہ سمجھنے کے لیے کافی نہیں کہ پھر کون چاہتا ہے کہ مسلمانوں کے قتل عام کا سلسلہ جاری رہے، خون مسلماں بہتا رہے اور اس بہتے خون کے خلاف آواز بلند کرنے، مظاہرے کرنے والے گرفتار ہوتے رہیں لیکن خون بہانے والوں کو روکنے والا کوئی نہ ہو۔ جن کی ذمہ ظلم روکنا ہو وہ ظالم کی حمایت کرتے رہیں، ظالم افواج کی مالی مدد کریں، ان کی فوج کا ساتھ دیں تو کیا ان حالات میں کوئی بڑا انسانی سانحہ کیسے جنم نہیں لے گا۔
یاد رہے کہ عدالت انصاف کا اپنے حکم میں کہنا ہے کہ رفح میں اسرائیلی اقدامات سے فلسطینی عوام کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ اسرائیل نے کئی ہفتوں کی شدید بمباری کے بعد رفح میں زمینی آپریشن شروع کیا، اسرائیل غزہ سے انخلا کے لیے حفاظتی اقدامات کرنے میں ناکام رہا۔ رفح میں لاکھوں فلسطینیوں نے پناہ لے رکھی تھی، رفح میں اسرائیلی زمینی آپریشن سے آٹھ لاکھ فلسطینی بے گھر ہوئے۔
یہ فیصلہ عالمی عدالت انصاف کا ہے اگر اس فیصلے کے بعد بھی عالمی طاقتوں کی طرف سے مسلم دشمنی کو ایک طرف رکھ کر اقدامات نہیں کیے جاتے تو یاد رکھیں وہ وقت دور نہیں کہ جب ایک اور عالمی جنگ کا آغاز ہو گا۔ کیونکہ ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ ہمیشہ فلسطین کے مسلمانوں کو مار پڑتی رہے، مسلم بچے شہید ہوتے رہیں اور ہر طرف خاموشی رہے، کوئی نہ کوئی تو ضرور اٹھے گا اور اس ظلم کا راستہ روکنے کے لیے آگے بڑھے گا پھر ان ظالم ممالک کے خلاف ہر جگہ کارروائیاں ہوں گی۔ پھر صرف مسلمانوں کا خون نہیں بہے گا پھر صرف زمین سے انسانوں کی تعداد کم ہو گی۔ اور اس جنگ کو روکنا آسان نہیں ہو گا۔
عالمی عدالت انصاف نے یہ بھی کہا ہے کہ عدالت کے پچھلے احکامات کے بعد اب صورتحال بدل چکی ہے، اقوام متحدہ نے بارہا اسرائیلی آپریشن کے خطرات سے آگاہ کیا، اقوام متحدہ کے بتائے گئے خطرات عملی شکل اختیار کرنے لگے ہیں۔
گذشتہ چند ماہ کے دوران ہزاروں فلسطینیوں کی شہادت، لاکھوں مسلمانوں کا بے گھر ہونا، عمارات کا کھنڈر ہو جانا، معصوم بچوں کی چیخ و پکار، بزرگوں کی بے بسی یہ سب کسی کو نظر نہیں آئے گی بنیادی طور پر یہ مسلم امہ کی ذمہ داری ہے۔ کیا امت مسلمہ کے حکمرانوں کی ذمہ داری محض زبانی احتجاج ہے یا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کرنا ان کا فرض بھی ہے۔ اگر وہ اس فرض کو جان بوجھ کر نظر انداز کر رہے ہیں تو کیا وہ یہ سمجھتے ہیں اس کوتاہی کا حساب بھی ہونا ہے اور اس کا جواب بھی دینا پڑے گا۔ کاش کہ یہ سوال امت مسلمہ کے حکمران اپنے آپ سے کریں اور اس کا جواب بھی تلاش کریں۔
آخر میں احمد شمیم کا کلام
کبھی ہم خْوب صْورت تھے
کتابوں میں بَسی
خْوشبو کی صْورت
سانس ساکِن تھی
بہت سے اَن کہے لفظوں سے
تصویریں بناتے تھے
پرندوں کے پروں پر نظم لکھ کر
دْور کی جھیلوں میں بسنے والے
لوگوں کو سْناتے تھے
جو ہم سے دْور تھے لیکن
ہمارے پاس رہتے تھے
نئے دِن کی مْسافت
جب کِرن کے ساتھ
آنگن میں اْترتی تھی
تو ہم کہتے تھے
اَمی تِتلیوں کے پَر
بہت ہی خْوب صْورت ہیں
ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو
کہ ہم کو تتلیوں کے
جگنوؤں کے دیس جانا ہے
ہمیں رنگوں کے جْگنو
روشنی کی تتلیاں آواز دیتی ہیں
نئے دِن کی مْسافت
رنگ میں ڈْوبی ھََوا کے ساتھ
کِھڑکی سے بْلاتی ہے
ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو
ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو