تحریر : محمد اکرم چوہدری
چند دن گذرے ہیں دو تین مرتبہ آزاد کشمیر میں پرتشدد مظاہروں پر لکھا گیا میں نے ایک سے زیادہ مرتبہ ان واقعات پر اسی لیے لکھا تھا کیونکہ مجھے اندازہ تھا کہ ان واقعات کے پیچھے کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہے جس سے دشمن نے فائدہ اٹھانا ہے اور کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہے جسے دشمن نے اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا ہے، مجھے یہ بھی یقین تھا کہ ان پرتشدد واقعات میں بھی کچھ ایسے شرپسند ضرور موجود ہوں گے جن کے ذمے جلاؤ گھیراؤ ہو گا، توڑ پھوڑ ہو گی، ماحول کو خراب کرنا ہو گا، آزاد کشمیر کا وہ چہرہ اس احتجاج کے ذریعے دنیا کو دکھانے کی کوششیں ہوں گی جو کہ آزاد جموں کشمیر کا اصل چہرہ نہیں ہے۔ ایسی سازشیں ہوتی ہیں بدقسمتی سے ہمارے اپنے لوگ ان سازشوں کا مقابلہ کرنے کے بجائے ان سازشی عناصر کے ہاتھوں کھلونا بن جاتے ہیں۔ ماضی میں بھی ایسا کئی مرتبہ ہوا ہے لیکن ہم نے سبق نہیں سیکھا اور سازشی عناصر کا مقابلہ اور ان کا قلع قمع کرنے کے بجائے ہم ان کے ہاتھوں میں کھیلنے لگتے ہیں۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ دشمن کیسے کیسے اور کہاں کہاں ہماری کمزوریوں، بے وقوفیوں، خطاؤں، نفرتوں اور کم عقلی سے فائدہ اٹھا کر ہمارے سرمائے کو آگ لگاتا رہے گا، ہمارے اندر انتشار پھیلاتا رہے گا اور ہمیں دنیا کے سامنے کمزور و ناکام بنانے اور دنیا کو یہ دکھانے کی کوشش کرتا رہے گا کہ پاکستان کے لوگوں میں قیادت کی صلاحیت نہیں ہے، پاکستان میں لوگوں کے بنیادی حقوق سلب ہو رہے ہیں، پاکستان میں لوگوں کے لیے زندگی ہو رہی ہے۔ دشمن یہ چالیں چلتا رہتا ہے اور ہم ان چالوں میں آ کر اپنا نقصان کرتے رہتے ہیں۔
آزاد کشمیر میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں یہ پہلو نہ پہلے نظر انداز کیا جا سکتا تھا اور نہ ہی اب کیا جا سکتا ہے۔ اب تو اس حوالے سے حقائق سامنے آ رہے ہیں۔ یہ حقائق بنیادی طور پر ہر وقت اپنے ملک کو برا بھلا کہنے والوں کے لیے بھی ایک سبق ہیں۔ ملک کو برا بھلا کہنے اور ان لوگوں کو قائد ماننے والوں کے لیے بھی سبق ہے کہ اپنی آنکھیں کھولیں، دماغ کھولیں، سوچ کو وسعت دیں، حالات کا جائزہ لیں اور ملک کے اصل دشمنوں کو پہچانیں۔ دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے پہلے اسے پہچاننا ضروری ہے جب تک اسے پہچانا نہیں جائے گا اس وقت تک دشمن کا مقابلہ نہیں ہو سکتا۔ ہم دشمن کو پہچاننے کے بجائے اپنوں کو ہی دشمن سمجھنے میں لگے ہیں، ہم دشمنوں کا پیچھا کرنے کے بجائے اپنی ہی ریاست کی بنیادیں کمزور کرنے میں لگے ہیں۔ باوجود اس کے کہ مظاہرین کے مطالبات بھی تسلیم کر لیے گئے تھے لیکن اس کے باوجود شرپسندوں نے حالات کو کشیدہ کرنے لوگوں کو ریاست کے خلاف بھڑکانے کے لیے پرتشدد کارروائیاں جاری رکھیں، مطالبات تسلیم ہونے کے بعد مظاہروں کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا اس معاملے میں بنیادی حقوق کی آڑ میں ملک دشمن عناصر کے ملوث ہونے کی واضح نشاندہی ہے۔
اب آزاد کشمیر میں ہونے والے احتجاج کے دوران رینجرز پرپتھراؤ اور تشدد کی ویڈیوز منظرِ عام پر آئی ہیں۔ اس احتجاج میں رینجرز کی گاڑیوں پر پتھراؤ کیا گیا اور گاڑیاں جلائی گئیں۔ان ویڈیوز کو دیکھنے کے بعد بھی اگر ہمیں یہ احساس نہیں ہوتا کہ واقعی دشمن ہمیں مختلف طریقوں سے نشانہ بناتا ہے تو پھر اپنی عقل پر ہی ماتم کر سکتے ہیں۔ میں تو پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ اس احتجاج کا مقصد صرف سستے آٹے کا حصول اور بجلی کی قیمتوں کے لیے نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے چھپے محرکات کچھ اور تھے۔جن لوگوں میں ذہنوں میں کوئی شک تھا اب وہ شک ختم ہو جانا چاہیے۔ پر امن مظاہرے تو بنیادی حقوق کے زمرے میں آتے ہیں لیکن جب احتجاج پر امن نہ رہے اور پرتشدد ہو جائے تو کیا ایسے احتجاج کو روکنا بھی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کہا جا سکتا ہے۔ پرامن آزاد کشمیر کی تاریخ میں ایسے پرتشدد واقعات نہیں دیکھے گئے۔ ان پرتشدد واقعات میں میرپور کے ایس ایچ او عدنان قریشی کو شرپسند ٹولے کی جانب سے شہید کیا گیا، واقعات میں نوے سے زائد پولیس اہلکار زخمی ہوئے اور گاڑیوں کی بڑی تعداد کو نذرِ آتش کیا گیا۔ مظاہرین نے صرف رینجرز کے خلاف نعرے بازی ہی نہیں بلکہ پہاڑوں سے پتھراؤ کیا اور شر پسندوں نے رینجرز کی دو گاڑیوں کو بھی جلا ڈالا۔ان پرتشدد واقعات کی وجہ سے کاروبار زندگی مفلوج ہوا، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار ہی نہیں بلکہ آزاد کشمیر کا غریب دیہاڑی دار مزدور سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ کیا کوئی اپنے ہی گھر کو جلائے اور کہے کہ پرامن احتجاج سب کا حق ہے تو یہ کہاں کا انصاف ہے، قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر پتھراؤ، جلاو گھیراؤ یہ سب دشمن کی سازش ہے میں اپنے لوگوں سے مخاطب ہوں کہ انہیں ہوش کے ناخن لینا ہیں۔ اگر ہم نے اپنے آپ کو اندرونی طور پر منظم نہ کیا تو دوسروں پر الزام دھرنے یا سازشیوں کو برا بھلا کہنے سے تو کام نہیں چل سکتا۔ یہ یاد رکھا جائے کہ سیاحت کا سیزن ہے۔ جب سیاح ایسے علاقے کی طرف جا رہے ہوں اور وہاں اس طرح کے پرتشدد واقعات ہونے لگیں تو ناصرف سیاحت سے وابستہ افراد متاثر ہوئے ہیں تو دوسری جانب سیاحت کی مد میں آنے والا زرِمبادلہ بھی رکا ہے۔ اس سے نقصان کس کو ہو سکتا ہے اور اس سے فائدہ کون اٹھائے گا۔ کوئی شک نہیں کہ احتجاج کو بنیادی حق کہا جاتا ہے مگر مظاہروں کی آڑ میں شر پسندی کرنے والے عناصر احتجاج نہیں بلکہ بیرونی ایجنڈے پر عمل پیرا ہو کر اپنے ہی ملک میں آگ لگاتے ہیں۔ ایسے عناصر کے ساتھ کبھی کوئی نرمی یا رعایت نہیں ہونی چاہیے۔ ایسے پرتشدد واقعات کا حصہ بننے والوں کو سخت سے سخت سزائیں دینی چاہیں۔ کڑی سزائیں دے کر مثال بنانا چاہیے۔ یاد رکھیں اپنے ہی ملک کو آگ لگانے والے ملک دوست نہیں بلکہ ملک دشمن ہیں اور ایسے عناصر کی نشاندہی ہر پرامن شہری کی ذمہ داری ہے تاکہ مستقبل میں ایسے حادثات سے بچا جا سکے۔ اپنے ملک کو آگ لگانے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔
آخر میں احمد ندیم قاسمی کا کلام
اس سے بہتر کوئی لمحہ تمہیں شاید ہی ملے
اس سے پہلے کبھی نفرت کے یہ معیار نہ تھے
جنگ کرتے تھے فقط اپنے تحفظ کے لئے
نوعِ انساں سے تو تم برسرِ پیکار نہ تھے
حسن و زیبائی عالم سے تو بیزار نہ تھے
وہ بھی کیا دن تھے کہ 'تہذیب' ترقی پہ نہ تھی
جب عداوت کے بھی آداب ہْوا کرتے تھے
ذہن بنجر نہیں شاداب ہْوا کرتے تھے
اب تو انسان کچھ اس دور کا جذباتی ہے
جنگ کلیوں کے چٹکنے سے بھی چھڑ جاتی ہے
اس طرح چاک ہوا پیرہنِ امن و سکوں
رہنمایانِ سیاست سے یہ شاید ہی سِلے
اپنے فن کار کا اک بار تو کہنا مانو
اس سے بہتر کوئی لمحہ تمہیں شاید ہی ملے
عشق کرنے کا یہی وقت ہے ائے انسانو!
اتنی نفرت بھی نہ بوؤ کہ قیامت کاٹو
عشق کرلو کہ یہی عشق ہے اب شرطِ بقا
پتھروں نے اسی قوت سے ابھارے کہسار
یہی قوت ہے سمندر یہی قوت صحرا
اسی قوت سے ہے مربوط ستاروں کا نظام
شاخِ گْل ہے اسی قوت کے سہارے گلنار
یہی قوت ہے توازن ، یہی قوت ہے خدا
آج ہو جائے جو انسان کو انسان سے پیار
چار سْو ایک تبسم کا ہو عالم طاری
صحنِ گلشن میں بدل جائے یہ دھرتی ساری
توپ ہو روئے زمیں پر نہ فضا میں بمبار
لاکھ طوفان اْٹھیں لاکھ عناصر گرجیں
عشق چاہے تو شجر کیا کوئی پتہ نہ ہلے
آدمیت کا جو منصب ہے اسے پہچانو
اس سے بہتر کوئی لمحہ تمہیں شاید ہی ملے
عشق کرنے کا یہی وقت ہے ائے انسانو