ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) نے ایک تحقیق میں کہا ہے کہ تمباکو کی صنعت کے دعویٰ کے برعکس پاکستان کی مارکیٹ میں سگریٹ کی غیر قانونی تجارت کا حجم کل سگریٹ مارکیٹ کا 9 سے 17 فیصد ہے۔
تحقیق میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ تمباکو کی کھپت کو کم کرنے کا سب سے موٴثر طریقہ تمباکو کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔عالمی ادارہ صحت نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان میں تمباکو کی صنعت پر ٹیکس لگا کر تمباکو کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے۔پاکستان بیورو آف شماریات کے اعداد و شمار پر مبنی اس تحقیق کے مطابق 2015-16 میں مقامی تیار کردہ سگریٹ پر ٹیکس چوری 53.8 ارب روپے تھی جس میں 38.9 بلین روپے جو کل حصہ کا 72 فیصد سے زیادہ ہے جائز شعبے سے چوری کی گئی،وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں کیے گئے ایک سروے کا حوالہ دیتے ہوئے اس تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ پاکستان ٹوبیکو کمپنی (PTC) تمباکو کی سب سے بڑی کمپنیوں میں سے ایک ہے جس کا دارالحکومت میں مارکیٹ شیئر 56 فیصد سے زیادہ ہے جب کہ فلپ مورس کے پاس مارکیٹ کا 20 فیصد حصہ ہے۔تحقیق سے معلوم ہوا کہ غیر قانونی مارکیٹ شیئر تقریباً 23 فیصد ہے جس میں سے 47 فیصد اسمگل اور 45 فیصد نان ٹیکس پیڈ ہے۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ غیر قانونی مارکیٹ شیئر کا 8% جعلی سگریٹ کا ہے۔ملک عمران احمد، مہم برائے تمباکو سے پاک بچوں (CTFK) کے کنٹری ہیڈ نے، صحت عامہ پر تمباکو کے استعمال کے نمایاں اثرات کا حوالہ دیتے ہوئے فوری کارروائی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ 60فیصد سے زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، حکومت کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ تمباکو کے استعمال کی برائیوں سے بچائے،انہوں نے کہا کہ اس اقدام سے سال کے آخر تک 200 ارب روپے سے تجاوز ہونے کا امکان ہے اور اضافی آمدنی پیدا ہونے اور تمباکو نوشی سے متعلق بیماریوں سے منسلک صحت کی دیکھ بھال کے اخراجات کی وصولی میں مدد کی توقع ہے۔ تمباکو کے استعمال سے سالانہ تقریباً 160,000 جانیں جاتی ہیں، جو کہ صحت کی دیکھ بھال کے اخراجات میں پاکستان کے جی ڈی پی کا 1.4 فیصد ہے۔