سپریم کورٹ نے سرکاری جامعات میں وائس چانسلرز کی تقرری پر ایک ماہ میں پیشرفت رپورٹ طلب کرلی جبکہ کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ملک میں آہستہ آہستہ سب کچھ زمین بوس ہو رہا ہے ، کوئی ایک سرکار بھی ٹھیک نہیں چل رہی ، لگتا ہے ہم کسی دشمن ملک میں بیٹھے ہیں ، صرف تعلیم کا شعبہ ٹھیک کر دیں تو پورا ملک ٹھیک ہو جائے۔
سپریم کورٹ میں سرکاری یونیورسٹیوں کی خراب حالی بے نقاب ہو گئی ، ایچ ای سی کی پیش کردہ رپورٹ کے مطابق 154 سرکاری جامعات میں سے 66 میں وی سی کے عہدے خالی یا اضافی چارج ہیں ، خیبرپختونخوا کی 32 میں 22 جامعات مستقل وائس چانسلر کے بغیر ہیں جبکہ پنجاب کی 49 میں 29 ، بلوچستان کی 10 میں سے 5 یونیورسٹیوں کا بھی یہی حال ہے۔
اسلام آباد اور سندھ کی 29 ، 29 سرکاری جامعات میں سے 5 ، 5 میں مسستقل وی سی تعینات نہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی وائس چانسلرز کی عدم تعیناتی پر شدید برہم ہوئے ریمارکس دیئے کہ منظم طریقے سے پاکستان کا مستقبل تباہ کیا جا رہا ہے ، سب کچھ آہستہ آہستہ زمین بوس ہو رہا ہے ، کچھ لوگ اسکول تباہ کر کے کہتے ہیں اسلام کی خدمت کر رہے ہیں ، پھر حکومتیں اُن سے مذاکرات بھی کرتی ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پی آئی اے کی طرح یونیورسٹیوں میں بھی تباہی ہو رہی ہے ، ہر غلط کام بیوروکریسی کی ملی بھگت سے ہی ہوتا ہے، ملک میں کوئی ایک سرکار بھی ٹھیک نہیں چل رہی ، لگتا ہے ہم کسی دشمن ملک میں بیٹھے ہوئے ہیں۔
خیبرپختونخوا حکومت کے وکیل نے وائس چانسلرز کیلئے فائنل کئے گئے نام بتانے سے معذرت کی تو چیف جسٹس نے کہا کیا یہ ایٹمی راز ہیں یا نام آنے سے آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ہو گی؟ ہر جگہ اپنا بندہ فٹ کرنے کیلئے ہی چیزوں کو خفیہ رکھا جاتا ہے، لگانا ہو گا کسی ایم پی اے کا چاچا ماما یا بھائی۔
لاہور اور پشاور ہائیکورٹس کی جانب سے وائس چانسلرز کی تعیناتیوں پر حکم امتناع کا بتایا گیا تو چیف جسٹس نے کہا عدالتیں ان کیسز کو جلد نمٹائیں اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کا حصہ نہ بنیں ۔
عدالت نے وائس چانسلرز کی تعیناتی میں پیشرفت رپورٹ ایک ماہ میں پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔