گذشتہ روز بھی آزاد کشمیر کے مسائل پر لکھا گیا تھا، حکومت نے مظاہرین کے مطالبات تسلیم کیے اور سہولیات بھی فراہم کی ہیں۔ اس کے باوجود گذرے دن مظفر آباد میں یوم سیاہ منایا گیا ہے۔ مظفر آباد میں کل مختلف مقامات پرجھڑپوں میں تین افراد کے جاں بحق ہونے پریوم سیاہ منایا جارہا ہے۔ آزاد جموں وکشمیر یونیورسٹی سمیت تمام سرکاری و نجی تعلیمی ادارے بھی بند رہے۔ یوم سیاہ منانے والوں کو یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ احتجاج کے نام پر جو کچھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے برداشت کیا ہے۔ ان پر ہونے والے ظلم پر بھی کوئی یوم مذمت منائے گا۔ مظاہرین نے قانون ہاتھ میں لیا لیکن اس کے باوجود انہیں رعایت ملی ہے۔ ناصرف رعایت ملی ہے بلکہ کشمیریوں کی زندگی آسان بنانے کے لیے بھی اہم فیصلے ہوئے ہیں۔ ارباب اختیار کو کشمیریوں کی زندگی کو آسان بنانے کے فیصلوں کرنے کے ساتھ ساتھ اس واقعات کے پس پردہ کام کرنے والے عناصر پر ضرور نگاہ رکھنا ہو گی۔ کیونکہ یہ ممکن نہیں ہے کہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوں اور اس کے پیچھے ملک دشمن طاقتیں نہ ہوں۔ دیکھیں پاکستان کے مختلف شہروں میں غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کے لیے کام کرنے والے افراد گرفتار ہوتے رہے ہیں۔ اس لیے کشمیرمیں ہونے والے مظاہروں کے پیچھے بھی شرپسند ضرور ہو سکتے ہیں۔ توڑ پھوڑ، جلائو گھیراؤ کا ہمیشہ کوئی مقصد ہوتا ہے اور اس توڑ پھوڑ، جلائو گھیراؤ کو دشمن ملک بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی مخالفت میں ضرور استعمال کر سکتے ہیں۔
یہ یاد رہے کہ یوم سیاہ کے موقع پر بازار اور سڑکیں سنسان تھیں جب کہ آزادکشمیر بار کونسل کی کال پر وکلا نے بھی عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ ہے۔
اس کے علاوہ مختلف علاقوں میں ٹیلی فون اور انٹرنیٹ سروسز بند ہونے سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔دوسری جانب حکومت اور عوامی ایکشن کمیٹی کے درمیان تیسرے اہم مطالبے پر پیش رفت سامنے آئی ہے جس کے پیش نظر افسران کی مراعات میں کمی کیلئے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا گیا ہے۔ حکومت کے لیے اس سانحہ میں سیکھنے کے لیے یہی ہے کہ معاملات اس حد تک پہنچ جائیں کہ شہریوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے سڑکوں پر آنا پڑے اس سے پہلے ہی مسائل کو حل ہونا چاہیے۔ کشمیر ایک حساس علاقہ ہے اس کی حساسیت کے پیش نظر اقدامات اور انتظامات غیر معمولی ہونے چاہئیں اور اگر حکمران یہ سمجھ لیں کہ ملک کا ہر حصہ حساس ہے اور ہر جگہ شہریوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی بلا تعطل ہونی چاہیے اور ہر جگہ زندگی کی بنیادی ضروریات آسانی کے ساتھ دستیاب ہونی چاہئیں ۔ ہمارے ہاں معاملات اس کے برعکس ہیں، ہر گذرتے دن کے ساتھ زندگی مشکل تر ہوتی جا رہی ہے پھر مظفر آباد ہو یا لاہور یا پھر کراچی لوگ ہر جگہ باہر نکلیں گے پھر ایسے بڑے اور اہم شہروں میں مظاہرین کو سنبھالنا اور روکنا مشکل ہوتا ہے۔ آزاد جموں کشمیر میں ہونے والے مظاہروں کو ایک ٹیسٹ کیس کی طرح لینا چاہیے، گرمیوں میں لوگوں کی قوت برداشت کم ہو جاتی ہے۔ بجلی کے بھاری بل انسانی برداشت کو کم کریں گے۔ اس لیے حکومت کے لیے ضروری ہے کہ اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں کمی اور استحکام کے لیے کام کرے کیونکہ کسی ایک طرف سے تو عام آدمی کو سہولت ملے۔ اگر یوٹیلیٹی بلز پر آمدن کا بڑا حصہ خرچ ہو جائے تو پھر اشیاء خوردونوش میں سہولت ملے تاکہ توازن قائم ہو سکے۔ حکومت مہنگائی پر کنٹرول کر سکتی ہے، ناجائز منافع خوری پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ پھلوں سبزیوں، دالوں، گوشت اور ادویات کی قیمتوں کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ یہ سہولت کشمیر سے ڈیرہ اسماعیل خان اور کراچی سے لاہور سب کے لیے ہونی چاہیے۔ جب تک حکومت عام آدمی کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کام نہیں کرے گی اس وقت تک ایسے مظاہروں کا خطرہ ہر وقت موجود رہے گا۔
خبر یہ بھی ہے کہ گذشتہ روز مالاکنڈ ڈویژن کے اضلاع سوات، باجوڑ، بونیر، اپر اور لوئر چترال، شانگلہ، اپر اور لوئر دیر میں تاجروں کی اپیل پر ہڑتال ہوئی اس دوران تمام اضلاع میں تجارتی مراکز اور نجی تعلیمی ادارے بند ہیں۔ یاد رہے تاجر برادری کی یہ ہڑتال ٹیکس نافذ کرنے کے خلاف ہے۔ تاجر برادری نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ مالاکنڈ ڈویژن ٹیکس فری زون ہے اور یہاں کسی قسم کا ٹیکس قبول نہیں کیا جائے گا۔ کیا تاجر برادری کو وہ تمام سہولیات جو ریاست انہیں فراہم کرتی ہے واپس لے لینی چاہئیں اگر ریاست سہولیات فراہم کر رہی تو کچھ حق ریاست کا بھی ہے۔ بالخصوص ان علاقوں میں سیکیورٹی کے لیے ہی جتنے اخراجات ہوتے ہیں کیا ان کا کسی کو اندازہ ہے۔ دیگر سہولیات اس کے علاوہ ہیں۔ ویسے تاجروں کا یہ رویہ صرف مالاکنڈ ڈویژن تک محدود نہیں ہے۔ یہ مسئلہ پاکستان بھر میں اپنی جگہ پایا جاتا ہے۔ لوگ مزے کرنا چاہتے ہیں لیکن ٹیکس نہیں دینا چاہتے، ٹیکس چوری ہمارا محبوب مشغلہ ہے۔ تنخواہ دار طبقہ سب سے زیادہ پس رہا ہے کیونکہ ان کی تنخواہ ہی ٹیکس کٹوتی کے بعد ملتی ہے دیگر شعبوں میں ٹیکس چوری معمول کی بات ہے۔ ایک طرف لوگ سستی بجلی اور بہتر طرز زندگی کے خواہاں ہیں دوسری طرف ٹیکس دینے کے لیے رضامند نہیں ہیں۔ ان حالات میں بہتری کیسے ممکن ہے۔
خبر یہ بھی ہے کہ سٹریٹجک اداروں کے علاوہ تمام حکومتی ملکیتی اداروں کی نجکاری کا اعلان کر دیا ہے۔ حکومت کا فیصلہ ہے کہ تمام سٹریٹجک اداروں کے علاوہ خسارہ زدہ یا منافع بخش تمام ریاستی اداروں کی نجکاری ہو گی۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف کہتے ہیں کہ "حکومتی ملکیتی اداروں کی نجکاری سے ٹیکس دہندگان کے پیسے کی بچت ہو گی اور سروسز کی فراہمی کا معیار بہتر بنانے میں مدد ملے گی، نجکاری کے عمل میں شفافیت کو اولین ترجیح دی جائے۔"
پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کی نجکاری کا سارا عمل براہ راست نشر کیا جائے گا۔ نجکاری عمل میں سب سے اہم شفافیت اور پاکستان کے مفادات کا تحفظ ہے۔ نجکاری ہماری ضرورت ہے لیکن اس سارے عمل میں یہ یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ہر حال میں ملک کے بہتر مستقبل کو ترجیح دی جائے۔ ماضی میں ہم نے مختلف معاہدے کیے ہیں جن کا ملک کو فائدہ نہیں نقصان ہوا ہے اور ایسے کئی معاہدوں کو ہم آج بھی بھگت رہے ہیں۔ نجکاری کو ملکی مفاد میں دیکھنا ہے۔ اس کی آڑ میں پسندیدہ افراد یا کمپنیوں کو نوازنے سے بچنا ہے۔ یہ نہ ہو ایک تباہی سے بچتے بچتے اور تباہی کو گلے لگا لیں۔
آخر میں اشرف یوسفی کا کلام
کیسے کٹا یہ شب کا سفر دیکھنا بھی ہے
بجھتے دیے نے وقت سحر دیکھنا بھی ہے
بے نام چاہتوں کا اثر دیکھنا بھی ہے
شاخ نظر پہ حسن ثمر دیکھنا بھی ہے
اب کے اسے قریب سے چھونا بھی ہے ضرور
پتھر ہے آئنہ کہ گہر دیکھنا بھی ہے
یہ شہر چھوڑنا ہے مگر اس سے پیشتر
اس بے وفا کو ایک نظر دیکھنا بھی ہے
ان آنسوؤں کے ساتھ بصارت ہی بہہ نہ جائے
اتنا نہ رو اے دید تر دیکھنا بھی ہے
ممکن نہیں ہے اس کو لگاتار دیکھنا
رک رک کے اس کو دیکھ اگر دیکھنا بھی ہے
منظر ہے دل خراش مگر دل کا کیا کریں
گو دیکھنا نہیں ہے مگر دیکھنا بھی ہے
اس آس پر کھڑے ہیں کہ اک بار یوسفی
اس نے ذرا پلٹ کے ادھر دیکھنا بھی ہے