مسلم لیگ نواز کے رہنما اور سینیٹر طلال چوہدری کا کہنا ہے کہ جزاء سزا کا نظام سب سے پہلے عدلیہ کے اندر ہونا چاہیے، آرٹیکل 62 اور 63 کا حساب وہ لوگ لے رہے ہیں جو خود اس پر پورا نہیں اترتے۔
بدھ کو پریس کانفرنس کے دوران نون لیگی رہنما طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ خط کے ذریعے بات کرنے کا ایک نیا رواج شروع ہوا ہے، اسی رواج کو دیکھتے ہوئے ضلعی عدلیہ نے بھی چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو خط لکھا، ہائیکورٹ کے جج صاحبان کا خط اتنا اہم ہے کہ سپریم کورٹ اسے دیکھ سکتی ہے، تو پھر ضلعی عدلیہ کا خط اس سے بھی زیادہ اہم ہے۔
ن لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ عام آدمی کو انصاف سول اور سیشن کورٹ سے ملتا ہے، ماتحت عدلیہ کے ججوں کواپنی ٹرانسفر، پوسٹنگ پر تشویش ہے، میرٹ کی جگہ پسند نا پسند کو ترجیح دی جا رہی ہے، دادا کیس شروع کرتا ہے پوتے کو انصاف نہیں ملتا، وہ لوگ کس کو خط لکھیں۔
طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ عدالتی نظام ٹھیک کرنے کی بجائے نان ایشو کو ایشو بنایا جا رہا ہے، جج خط نہیں لکھتے، فیصلے سناتے ہیں، لیٹرز کی بجائے نوٹس ہونے چاہئیں، ضلعی جج صاحبان کے خط بہت اہم ہیں، سب سے پہلے ضلعی عدلیہ کے خط کا نوٹس ہونے چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں تقرر کا طریقہ کار موجود ہے، عدلیہ کے معاملات کو بہتر بنانے کیلئے پارلیمنٹ کا کردار ادا کرنا چاہیے، ہم جیسے ارکان اسمبلی توہین پر نااہل کر دیئے جاتے ہیں لیکن توہین پارلیمنٹ پر کسی جج صاحب کو پارلیمنٹ طلب نہیں کر سکتی، آپ پھانسی دے دیں 46 سال بعد کہیں کہ پھانسی غلط تھی، نوازشریف کو تاحیات نااہل کردیں، پھر کہیں غلط فیصلہ ہوا تھا، جزاء سزا کا نظام سب سے پہلے آپ کے اندر ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ 62 اور 63 کا حساب وہ لوگ لے رہے ہیں جو خود اس پر پورا نہیں اترتے، چھ 7 سال تک میرٹ کو نظرانداز کرتے ہوئے خاص سوچ پر کام کیا گیا، اگراسلام آباد ہائیکورٹ کے جج صاحبان دباؤ میں فیصلے نہیں کر پا رہے، اگردباؤ ڈال کر فیصلے لینے کے الزامات ہیں تو سب سے پہلے اس معاملے پر بات ہونی چاہیے، پریشر ایجنسیوں سے نہیں، خبروں سے بھی بنتا ہے۔