کل نو مئی ہے گذشتہ برس اس روز پاکستان کی ایک سیاسی جماعت نے بادی النظر میں اپنی سیاسی شکست یا سیاسی ناکامی کا ملبہ ریاستی اداروں پر ڈالنے کی کوشش میں ملک کو ایک بحران سے دوچار کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کے سادہ لوح اور معصوم لوگ جو کہ دہائیوں سے سیاسی قیادت کے پرکشش وعدوں پر اکتفا کیے ہوئے ہیں اور ہر آنے والے حکمرانوں سے اچھی امیدیں بھی لگاتے ہیں۔ ایسے ہی معصوم اور سادہ طبعیت کے شہریوں کو ورغلایا گیا، ایک جھوٹا بیانیہ قائم کیا گیا اس حد تک جھوٹ بولا گیا کہ لوگوں کو سچ لگنے لگا، اختلافات ہر جگہ ہوسکتے ہیں لیکن کسی سے فوائد لیتے وقت بھی تنقیدی جائزہ لیا جائے تو اختلافات کے وقت ایسی سوچ ضرور کام آتی ہے۔ نو مئی 2023 کو بھی یہی ہوا اس سیاسی قیادت نے جسے ریاستی اداروں نے حکومت میں ہوتے ہوئے سب سے زیادہ مدد فراہم کی، تعاون کیا اور ڈلیور کرنے کے لیے ہر ممکن مدد ساتھ دیا لیکن بدقسمتی سے دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہی، ملکی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا گیا، اداروں کی تباہی کا سفر تیز ہوا، عام آدمی کی زندگی مشکل ہوتی چلی گئی، اس وقت کی حکومت کے غیر سنجیدہ روئیے کی وجہ سے دوست ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات میں دراڑیں آنے لگیں، تعلقات کشیدہ ہونے لگے، غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہونے لگا، مہنگائی میں تشویشناک حد تک اضافہ ہونے لگا۔ ادویات، اشیاء خوردونوش سمیت زندگی گذارنے کی تمام اشیاء اس حد تک مہنگی ہوئیں کہ حکومت کو لنگر خانے کھولنا پڑے۔ دراصل یہ منصوبہ تو حکومتی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ اصل بات یہ تھی کہ حالات یہاں تک کیوں پہنچے کہ لوگ بھوک کے ہاتھوں اتنے مجبور ہو گئے کہ حکومت کو لنگر خانوں کی طرف جانا پڑا۔ یہ دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت کی چند ناکامیاں ہیں۔ ناکامیوں، غلطیوں کی تفصیل یہاں لکھنا مشکل ہو گا لیکن پھر بھی یاددہانی کے لیے کچھ لکھ دیا ہے۔ ہاں یہ ضرور یاد رکھیں کہ بدعنوانی کے خاتمے کا دعوی کر کے حکومت میں آنے والی جماعت کے دور حکومت میں کرپشن بڑھ گئی۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے اس حوالے سے ایک رپورٹ بھی جاری کی تھی۔ بہرحال اتنی بڑی بڑی خامیوں اور غلطیوں کے بعد عدم اعتماد کے ذریعے حکومت ختم ہوئی تو مظلوم بن کر لوگوں سے غلط بیانی کے سلسلے میں شدت آئی اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ بہرحال نو مئی کو جو کچھ ہوا جن لوگوں نے نوجوان اور معصوم ذہنوں کو آلودہ کیا وہ یقینا سزا کے مستحق تو ہیں۔ ہر وہ شخص جس نے بغاوت کی اس کے ساتھ آئین اور قانون کے مطابق برتاؤ ہونا چاہیے۔ میں پہلے دن سے ہی یہ لکھ رہا ہوں کہ نو مئی کے واقعات کو ایک بڑی سازش اور بغاوت کے طور پر ہی دیکھا جانا چاہیے۔ اس بغاوت میں پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کے جو بھی لوگ شامل ہیں ان کے ساتھ ٹھوس ثبوت اور شواہد کی روشنی میں قانون کے مطابق فیصلہ ہونا چاہیے، اگر کوئی اس بغاوت کا حصہ ہے تو اسے معافی نہیں ملنی چاہیے اور اگر کوئی تخریبی کارروائیوں میں شامل نہیں ہے، منصوبہ بندی کا حصہ نہیں ہے، معصوم ہے تو اس کے ساتھ کسی قسم کی ناانصافی اور زیادتی نہیں ہونی چاہیے لیکن جو قوم کو ورغلانے، نوجوان اور معصوم ذہنوں کو آلودہ کر کے ریاست کے خلاف بھڑکانے کے عمل کا حصہ بنا ہے اسے کم از کم اس عمل کی سخت ترین سزا تو ضرور ملنی چاہیے۔ مطلب آپ کیسے اپنی سیاسی ناکامی کو چھپانے کے لیے، اپنی سیاسی ناکامی سے بچنے کے لیے ملک و قوم کے مستقبل سے کھیل سکتے ہیں، کیسے ریاست کے خلاف سازش کر سکتے ہیں، کیسے قوم کے نوجوانوں کے ذہنوں میں نفرت کا زہر بھر سکتے ہیں۔ اگر سیاسی یا ذاتی مفادات کی خاطر کوئی ایسا کرتا ہے تو یقینا اس کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے۔ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت پر اس حوالے سے مقدمات ہیں۔ اس معاملے میں مقدمات کو لٹکانا ہرگز نہیں چاہیے، مقدمات کی جلد تفتیش مکمل ہونی چاہیے اور ذمہ داروں کیخلاف سخت کارروائی بھی ہونی چاہیے۔ ہمارے ہاں تفتیش کا نظام بھی کمزور ہے اور اس کے بعد عدالتی کاموں میں تاخیری حربے اختیار کیے جاتے ہیں۔ ان تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے اور نو مئی کو ہونے والی سازش اور بغاوت کے تمام کرداروں کے ساتھ وہ سلوک ہونا چاہیے جو ملک و قوم کے بہتر مستقبل کے لیے ضروری ہے۔
گذشتہ روز اس حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریس کانفرنس بھی ہے انہوں نے بہت واضح انداز میں معاملات پر بات کرتے ہوئے دلیل کے ساتھ موقف قوم کے سامنے رکھا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف کہتے ہیں کہ "نو مئی کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں، یہ کرنے اور کروانے والوں کو سزا دینا پڑے گی لہٰذا جزا و سزا پر یقین رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ نو مئی کے ملزمان کو قانون و آئین کے مطابق سزا دیں اور جلد سے جلد دیں۔ نو مئی صرف افواج پاکستان کا مقدمہ نہیں، یہ پورے پاکستان کے عوام کا مقدمہ ہے، کسی بھی ملک میں اس کی فوج پر حملہ کرایا جائے، شہیدوں کی علامات کی تضحیک، بانی پاکستان کے گھر کو جلایا جائے، عوام اورفوج میں نفرت پیدا کی جائے یہ جو لوگ کر رہے ہیں اور کرا رہے ہیں۔ ان کو کیفر کردار تک نہ پہنچایا جائے، کسی بھی ملک میں ایسا ہو تو وہاں کے نظام انصاف پر سوال اٹھتا ہے۔ پاکستان جزا و سزا کے نظام پر یقین رکھنا ہے، نو مئی کو کرنے والے اور کروانے والوں کو آئین کے مطابق سزا دینا پڑے گی، ہم سب نے اپنی آنکھوں سے اس واقعے کو ہوتے دیکھا، ہم سب نے دیکھا کس طریقے سے لوگوں کی ذہن سازی کی گئی، افواج، ان کے لیڈرز، ایجنسیوں اور اداروں کے خلاف لوگوں کے ذہن بنائے گئے، ہم نے دیکھا کس طرح کچھ سیاسی لیڈرز نے چن چن کر بتایا کہ یہاں حملہ کرو، ہم نے دیکھا صرف فوجی تنصیبات پر حملے کرائے گئے جب یہ شواہد اور ساری چیزیں سامنے آئیں تو عوام کا غصہ اور رد عمل بھی آپ نے دیکھا، آپ نے دیکھا عوام کس طرح انتشاری ٹولے سے پیچھے ہٹے، جب کھل کر سامنے آگیا تو پروپیگنڈا شروع کیا گیا یہ فالس فلیگ آپریشن ہے۔"
آخر میں خلیل جبران کا کلام
ترجمہ فیض احمد فیض
قابلِ رحم ہے وہ قوم
جس کے پاس عقیدے تو بہت ہیں
مگر دل یقیں سے خالی ہیں
قابلِ رحم ہے وہ قوم
جو ایسے کپڑے پہنتی ہے
جس کے لیے کپاس
اْن کے اپنے کھیتوں نے پیدا نہیں کی
اورقابلِ رحم ہے وہ قوم
جو باتیں بنانے والے کو
اپنا سب کچھ سمجھ لیتی ہے
اور چمکتی ہوئی تلوار سے بنے ٹھنے فاتح کو
اپنا ان داتا سمجھ لیتی ہے
اور قابلِ رحم ہے وہ قوم
جو بظاہر خواب کی حالت میں بھی
ہوس اور لالچ سے نفرت کرتی ہے
مگر عالم بیداری میں
مفاد پرستی کو اپنا شعار بنا لیتی ہے
قابلِ رحم ہے وہ قوم
جو جنازوں کے جلوس کے سوا
کہیں اور اپنی آواز بلند نہیں کرتی
اور ماضی کی یادوں کے سوا
اس کے پاس فخرکرنے کا کوئی سامان نہیں ہوتا
وہ اس وقت تک صورتِ حال کے خلاف احتجاج نہیں کرتی
جب تک اس کی گردن
عین تلوار کے نیچے نہیں آجاتی
اور قابلِ رحم ہے وہ قوم
جس کے نام نہاد سیاستدان
لومڑیوں کی طرح مکّار اور دھوکے باز ہوں
اور جس کے دانشور
محض شعبدہ باز اور مداری ہوں
اور قابلِ رحم ہے وہ قوم
جو اپنے نئے حکمران کو
ڈھول بجا کر خوش آمدید کہتی ہے
اور جب وہ اقتدار سے محروم ہوں
تو ان پر آوازیں کسنے لگتی ہے
اور قابلِ رحم ہے وہ قوم
جس کے اہلِ علم و دانش
وقت کی گردش میں
گونگے بہرے ہو کر رہ گئے ہوں
اور قابلِ رحم ہے وہ قوم
جو ٹکڑوں میں بٹ چکی ہو اور جس کا ہر طبقہ
اپنے آپ کو پوری قوم سمجھتا ہو