اسلام آباد ہائیکورٹ نے بانی پی ٹی آئی عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر سماعت بدھ تک ملتوی کر دی۔
پیر کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سائفر کیس میں سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی جس کے دوران وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ( ایف آئی اے ) کے پراسیکیوٹر حامد شاہ عدالت میں پیش ہوئے۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے دلائل کے حوالے سے کہا کہ میں نے اُنکے دلائل کا جواب تو دینا ہے تاخیر کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے جس پر جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیئے کہ ہم آپکے دلائل کی تعریف کریں گے کیونکہ آپ نے عدالت کو تفصیلی بتایا ہے۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے سائفر گائیڈ لائن کا کتابچہ عدالت کے سامنے پڑھ کر سنایا۔
پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ سائفر دستاویز ڈی کلاسیفائی بھی ہو جائے تو اس پر وہی طریقہ کار استعمال ہو گا، ڈی کلاسیفائی ہونے کے باوجود بھی دستاویز کو اسی طرح تلف کیا جائے گا، 31 مارچ کی قومی سلامتی کمیٹی میٹنگ میں ڈی مارش کا فیصلہ کیا گیا، ڈی مارش ایکشن لینے کے فیصلے کے بعد موجودہ سائفر کا عمل مکمل ہوگیا، اسکے بعد اس سائفر کو دفتر خارجہ کو بھیجنے کے علاوہ کوئی عمل باقی نہیں رہا۔
پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی کے علاوہ تمام سائفر کاپیز دفتر خارجہ کو واپس بھجوا دی گئیں، دفتر خارجہ نے واپس آنے والی تمام کاپیز کو تلف کر دیا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عدالت نے سوال کیا تھا کیا ملزم کا دفاع وکیل کی عدم موجودگی میں ہوسکتا ہے؟، وکیل کی عدم موجودگی میں ملزم کے بیان کی اہمیت کم تو نہیں ہو جائے گی؟ جس پر پراسیکیوٹر نے بتایا کہ 342 کے دفاع کے بیان میں وکیل کی موجودگی کی کوئی ضرورت نہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سائفر دستاویز دانستہ اور لاپرواہی سے گم کرنے کے الزامات پر سزا سنائی گئی، کیا یہ دونوں الزامات بیک وقت ہو سکتے ہیں؟ جس پر پراسیکیوٹر نے بتایا کہ مختلف اوقات کے اقدامات پر دونوں الزامات بیک وقت لگیں گے، سائفرسیکیورٹی کا مقصد یہی ہے کہ اسے غیر متعلقہ شخص کے پاس جانے سے روکا جائے، چند حالات کے علاوہ سائفر کو کمرے سے کہیں باہر نہیں لے جایا جا سکتا، سائفر کو کنٹینر میں رکھ کر غیرمعمولی سیکیورٹی انتظامات کرنے ہوتے ہیں۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے عدالت کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا سیکشن 5 ون ڈی پڑھ کر سنایا اور کہا کہ سائفر اور دیگر خفیہ دستاویزات کیلئے سیکیورٹی طریقہ کار مختلف ہیں، وزارت خارجہ میں جو سیکیورٹی سسٹم ہے وہ لاکرز وغیرہ سے مختلف ہے۔
جسٹس گل حسن نے اسفتسار کیا کہ کیا اعظم خان نے سائفر دستاویز موصول کرنے پر ریسیونگ دی تھی؟ جس پر پراسیکیوٹر نے بتایا کہ اعظم خان نے خود نہیں بلکہ اسٹاف نے سائفر دستاویز موصول کیا تھا، اعظم خان نے بیان دیا انہیں سائفرکاپی دی گئی اور وہ انھوں نے وزیر اعظم کو دے دی۔
عدالت کے سوال پر کہ کیا بانی پی ٹی آئی کو سائفر کی اہمیت کا علم تھا پراسیکیوٹر نے بانی پی ٹی آئی کی اپنے یوٹیوب چینل پر کی گئی گفتگو پڑھ کرعدالت میں سنائی اور کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے ایف آئی اے پیشی سے پہلے اپنے یوٹیوب چینل پر گفتگو کی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یوٹیوب چینل پر گفتگو قابلِ قبول شہادت کیسے ہے؟ آپکوعدالت کو بھی مطمئن کرنا ہوگا۔
پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی نے کہا سائفر بہت اہم ہوتا ہے لیک ہوجائے تو سارے کوڈ پبلک ہوجاتے ہیں، میں اس کے بعد اس گفتگو کے قابلِ قبول شہادت ہونے سے متعلق دلائل دوں گا۔
بعدازاں، عدالت عالیہ نے اپیلوں پر مزید سماعت بدھ تک ملتوی کردی۔