سابق وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کا کہنا ہے کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید اور دو افسران نے فیض آباد دھرنے کے دوران ملاقات کر کے مجھ سے استعفیٰ مانگا تھا۔
فیض آباد دھرنا کمیشن کی رپورٹ میں نئے انکشافات منظر عام پر آئے ہیں جن میں ایک اہم انکشاف اس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد کی جانب سے بھی کیا گیا ہے۔
سابق وزیر قانون نے دھرنا کمیشن کو دیئے گئے بیان میں بتایا کہ فیض حمید اور دو افسران نے دھرنے کے دوران ملاقات کرکے استعفیٰ دینے کا کہا جس کے بعد وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو اس پیشکش کا بتایا تو وہ ماننے کو تیار نہیں ہوئے اور انہوں نے انکار کردیا۔
زاہد حامد کا کہنا تھا کہ نومبر 2017 کو دو انٹیلی جنس افسر لاہور میں میرے گھر استعفیٰ لینے آئے، فیض حمید نے مختصر وقت کے لیے استعفے کی تجویز بھی دی، ان کا خیال تھا میں بطور وزیر قانون کچھ عرصہ چھٹی پر چلا جاؤں تو بھی ٹی ایل پی مطمئن ہوجائے گی۔
دوسری جانب سابق آئی بی چیف آفتاب سلطان نے اپنے بیان میں ٹی ایل پی کیخلاف پولیس آپریشن کی ناکامی کی وجہ بتائی اور کہا کہ نومبر 2017 کا پولیس آپریشن واضح احکامات نہ ہونے کی وجہ سے ناکام ہوا۔
آفتاب سلطان نے بتایا کہ حکومت کو ٹی ایل پی سے بات چیت کا مشورہ دیا تھا تاکہ ٹی ایل پی اپنا مارچ ملتوی کردے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پہلے پولیس مظاہرین کو منتشر کرنے میں کامیاب رہی لیکن راولپنڈی سے مزید مظاہرین کے آنے پر پولیس پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوگئی۔