تحریر:کاشف شمیم صدیقی
ہمارے یہاں کے نظام کے"گلےسڑے"ہونےکی ایک بڑی وجہ عدل و انصاف پر مبنی فیصلوں کا نہ ہونا بھی ہے،ناانصافی پرمبنی فیصلے،ذمےداریوں کو نیک نیتی اور خلوصِ دل سےنہ نبھایا جانا،بدعنوانیوں اورناجائز اقدامات کا فروغ پانا۔یہ تمام باتیں نہ صرف معاشرتی تشخص کو پامال کرتی ہیں بلکہ اس کےمضر اثرات سےبالآخر ملکی امیج بھی حددرجےمتاثر ہوتا ہے۔
ان تمام ترحالات اورواقعات کے باوجود، آج بھی ہمارے معاشرے میں ایسے افراد موجود ہیں کہ جب وہ اپنی ذمےداریوں کو پوری ایمانداری اور نیک نیتی سے، بنا کسی خوف وخطر نبھاتے ہیں تو ان کا یہ عمل نہ صرف سراہےجانے کے قابل ہوجاتا ہے بلکہ معاشرتی تشخص اور ملکی امیج کو بھی جِلا بخشتا ہے۔
ایسا ہی کام ڈاکٹرسمعیہ سید نےبھی کیا ہےجو نہ صرف آج کل خبروں میں نمایاں ہے بلکہ عوامی حلقوں میں بھی خوب پزیرائی حاصل کر رہا ہے۔ڈاکٹر سمعیہ،شہر قائد میں پولیس سرجن کی حیثیت سے اپنے فرائض سر انجام دے رہی ہیں۔
ہوا کچھ یوں کہ گزشتہ پیر کےروزکراچی کےدرخشاں تھانے کے لاک اپ میں مردہ پائے جانے والےایک مشتبہ شخص کی پوسٹ مارٹم رپورٹ سےاب یہ پتہ چلا ہے کہ اس شخص کی ہلاکت اس پر ہونے والےبدترین تشدد کی وجہ سے ہوئی ہے۔اس پوسٹ مارٹم کےعمل کو ڈاکٹر سمعیہ سیدکی سربراہی میں چارڈاکٹروں کے بورڈ نےجوڈیشل مجسٹریٹ کی موجودگی میں انجام دیا تھا۔
ڈاکٹرسمعیہ کےمطابق "مقتول کےسرپرلاٹھیوں سے وار کیا گیا تھا اوراس کے ہاتھوں پرچوٹیں تھیں۔ اس کے پورےجسم پرمتعدد زخم پائے گئے،موت قدرتی وجوہات کی وجہ سے نہیں ہوئی تھی"۔
یہاں یہ بات اہم ہےکہ اسی ضمن میں شایع ابتدائی خبروں کےمطابق، پولیس کی جانب سے یہ کہاگیا تھا کہ بظاہر مشتبہ شخص کی موت دل کادورہ پڑنے سے ہوئی ہے،لیکن پھر ایک سچی پوسٹ مارٹم رپورٹ نےسب کوحقیقت سے آگاہ کردیا،پولیس سرجن اپنےفرض کو ایمانداری سے نبھاتےہوئے حقائق سامنے لے آئیں۔
دعا ہےکہ میرے وطن میں، حق،سچ اور انصاف پرمبنی فیصلے عمل میں آتے چلے جائیں،اور پھر ظلم، جبر، ناانصافی، حق تلفیوں اوربدعنوانیوں کا خاتمہ ہوتا چلا جائے۔