یورپ سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں سولر پینلز اتنے سستے ہو گئے ہیں کہ انہیں نیدرلینڈز اور جرمنی میں باغات کی باڑ بنانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
عالمی میڈیا کے مطابق یورپی ممالک سے سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی کچھ تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگوں نے سولر پینلز گھر کی چھتوں پر لگانے کی بجائے باغات کی باڑ بنانے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیے ہیں۔
عام طور پر سولر پینلز کا فائدہ تو چھت پر لگانے سے ہی ہوتا ہے مگر یورپ کے ان ممالک میں پینلز انسٹال کرنے کی لیبر اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ لوگ سولر پینلز کو فینسنگ کیلئے استعمال کرنا مناسب سمجھ رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سولر پینلز کی قیمتیں کم ہونے کی وجہ عالمی مارکیٹ میں چینی کمپنیوں کی جانب سے سولر پینلز کی بڑھتی ہوئی پیداوار ہے۔ ضرورت سے زیادہ سولر پینلز کی سپلائی کے باعث مارکیٹ پر چین کی گرفت حد سے زیادہ بڑھ چکی ہے جس کا امریکہ اور یورب کے مینوفیکچررز مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔
بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے اندازے کے مطابق عالمی سطح پر سولر پینل کی سپلائی اس سال کے آخر تک 1,100 گیگا واٹ یا موجودہ طلب سے تین گنا زیادہ ہو جائے گی۔ ایجنسی نے مزید کہا کہ 2023 میں سپاٹ مارکیٹ پر قیمتیں پہلے ہی نصف تک گر چکی ہیں اور 2028 تک ان میں مزید 40 فیصد کمی کا امکان ہے۔
جہاں دنیا بھر میں سولر پینلز سستے ہوئے ہیں وہیں پاکستان میں بھی ان کی قیمتوں میں واضع کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ گذشتہ برس بھی شمسی توانائی سے بجلی بنانے والے پینلز کی قیمتوں میں کمی دیکھی گئی تھی۔
مارکیٹ میں اس وقت سات سے 15 کلو واٹ سسٹم کی قیمت دو لاکھ روپے تک گری ہے۔ سولر پینلز کی خرید و فروخت کا کام کرنے والے کاروباری افراد کا کہنا ہے کہ مختلف عوامل کی وجہ سے ایسا ہو رہا ہے۔ اور ابھی کچھ وقت تک قیمتوں میں مزید کمی ہوگی۔