لتامنگیشکر گذشتہ برس کورونا اور نمونیہ کے باعث کئی دن علیل رہنے کے بعد 92 برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوگئیں مگران کے لازوال گیت آج بھی سماعتوں میں رس گھولتے ہیں۔
آنجہانی لتا منگیشکر نے 2000سے زائد فلموں میں اپنی آواز کا جادو جگایا۔ لتا نے گائیکی کا آغاز تو بچپن سے ہی کر دیا تھا وہ اپنے والد سے گائیکی کی تربیت لیتی تھیںاس لئے انہوں نے کم عمری میں ہی گلوکاری شروع کر دی تھی۔
‘‘لتا منگیشکر کی مشکلات لتا ہی جانتی ہے‘‘
لتاکا فنی کیریئر لگ بھگ 7 دہائیوں پر مشتمل رہا۔ انہوں نے کئی بالی ووڈ اداکاراؤں کو اپنی آواز دی ۔ لتا نے کبھی شادی نہیں کی بلکہ اپنی چھوٹی بہنوں اور بھائی کی دیکھ بھال کرنے میں اپنی عمر گزار دی۔لتا کم عمر تھیں جب ان کے والد انتقال کر گئے اور چھوٹے بہن بھائیوں کی ذمہ داری لتا پر آن پڑی۔
ایسا نہیں کہ لتا نے اپنی مرضی سے شادی نہیں کی بلکہ شاید وہ اس حوالے سے اپنے نصیب سے مات کھاتی رہیں۔ ان کی شادی کے بارے میں بہت سے قصے کہانیاں سنائے جاتے ہیں لیکن حقیقت کیا ہے یہ تو لتا ہی بہتر جانتی تھیں۔ ایک طرف ان کی بہن آشہ بھوسلے نے ایک سے زائد شادیاں کیںلیکن دوسری طرف لتا کی ایک بھی شادی نہ ہو سکی۔
اپنے ایک اینٹرویو میں لتا نے شادی کے سوال پر جواب دیا کہ’’ لتا کی مشکلات لتا ہی جانتی ہے۔‘‘
لتا منگیشکر کی ملکہ ترنم نور جہاں سے ملاقات
لتا نے جب بچپن میں گانا شروع کیا تو اس وقت نور جہاں ممبئی فلم انڈسٹری میں بڑی اداکارہ تھیں ،اکثر لتا ان کی موجودگی میں فلم اور میوزک سٹوڈیوز آتی جاتی رہتی تھیں اس دوران ایک دن ان کی ملاقات ملکہ ترنم نور جہاں سے ہوئی۔ نور جہاں نے دیکھالتا سادہ مگر خوش گلو تو تھیں، لتا کی آواز سے متاثر ہو کر نورجہاں نے ان سے پوچھا کیا تم گاتی ہو؟ جس پر لتا نے شرماتے ہوئے کہا جی میں گاتی ہوں۔ نور جہاں لتا کا گانا سن کر بہت متاثر ہوئیں انہوں نے لتا کو دعا دی کہ تم ایک دن بہت بڑی گلوکارہ بنو گی۔
لتا کی پہلی محبت
دراصل وہ شخصیات جنہیں لوگ محبت کرتے ہیںشاید ان کا اپنی ہی زندگی پر اختیار نہیں رہتا۔کہا جاتا ہے کہ لتا کی پہلی محبت پاکستانی گلوکار استاد سلامت علی تھے۔ پاکستان کے شام چوراسی گھرانےسے تعلق رکھنے والے گائیک استاد سلامت علی اور نزاکت علی انڈیا میں خاصے مقبول تھے، وہ اکثر کا م کے لئے انڈیا جاتے رہتے تھے۔ استاد سلامت علی کے گھر کے افراد کہتے ہیں وہ جب بھی انڈیا جاتے تھے ،لتا منگیشکر کے ہاں ٹھہرتے تھے۔انہوں نے ایک ساتھ بہت سے گانے بھی گائے۔
لتامنگیشکر اوراستاد سلامت علی قریب کیسے آئے؟
استاد سلامت علی جب بھی انڈیا جاتے ،لتا اپنی ہر مصروفیت کو پسِ پشت ڈال کر پورا وقت اور توجہ انہیں دیتیں جس سے ان کا کا م بھی متاثر ہوتا۔ان کے مینجرز اورفلم پروڈیوسر لتا کی اس لاپرواہی سے خوش نہیں تھے ۔ ایسے میں لتا کے قریبی لوگوں نے استاد سلامت علی کو کہنا شروع کر دیا کہ وہ جب بھی انڈیا آئیں تو الگ گھر میںرہا کریں کیونکہ اس سے لتا کے کام کا بہت ہرج ہوتا ہے ۔
استاد سلامت علی نے ایسا ہی کیا لیکن پھر بھی لتا ان سے دور نہ ہوسکیں۔وہ دن بھر ان کے ساتھ گزارتی ،ان کے لئے کھانے بنا کر لے جاتیں، ان کا خیال رکھتیں۔ ا ن دنوں لتا اور استاد سلامت علی کی محبت عروج پر تھی لیکن لتا کا فنی کیریئر بھی عروج پر تھا جس کی لتا کو کوئی پرواہ نہ تھی۔
لتا اور استاد سلامت علی جدا کیسے ہوئے؟
انڈیا میں ایک تحریک شروع ہوئی جس کے نتیجے میں یہ طے کیا گیا کہ استاد سلامت علی اور استادنزاکت علی کا انڈیا آنا جانا ہی بند کر دیا جائے تا کہ لتا اور استاد سلامت کو الگ کر دیا جائے۔یوں محبت کرنے والے دو دل سرحدوں کی بھینٹ چڑھ گئے اور جدا ہوگئے۔
استاد سلامت علی کے بھتیجے استاد رفاقت علی بتاتے ہیں، لتا کا گایا ہو اگیت ’’ لگ جا گلے کہ پھر یہ حسین رات ہو نہ ہو، شاید اس جنم میں پھر ملاقات ہو نہ ہو۔۔۔‘‘
جب بھی استاد سلامت علی سنتے ،ان کی آنکھیں بھر آتیں۔
کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر اس وقت استاد سلامت علی اور لتا جدا نہ ہوتے توشاید انڈیا پاکستان میں اس پر بھی جنگ ہو جاتی ۔ لتا کی استاد سلامت علی سے محبت کا اسی سے اندازہ لگا لیں کہ جب استاد سلامت علی اپنا آخری وقت لندن میں گزار رہے تھے تو ایک مرتبہ ہسپتال میں داخل ہونا پڑااس دوران لتا ان سے ملنے لندن پہنچ گئیں اور ان کے علاج کے اخراجات بھی اٹھائے۔