سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ میں نے نہیں دیکھا کہ سابق آرمی چیف جنرل ( ر ) باجوہ اور سابق ڈائریکٹر جنرل ( ڈی جی ) انٹر سروسز انٹیلی جنس ( آئی ایس آئی ) لیفٹینٹ جنرل ( ر ) فیض حمید نے آئین توڑا ہو، اگر انہوں نے کچھ کیا ہے تو سامنے لایا جائے کیا قانون توڑا ہے، ان دونوں کے عہدے کا دائرہ اختیار بہت وسیع ہے۔
وفاقی کابینہ
سماء کے پروگرام ’’ دو ٹوک ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم شاہد خان عباسی کا کہنا تھا کہ موجودہ کابینہ میں نئے لوگ بھی ہیں ، محمد اورنگزیب کی بطور وزیر خزانہ تعیناتی پر تنقید مناسب نہیں، اگر پارٹی میں ڈپتھ نہ ہو تو باہر سے لوگ لائے جا سکتے ہیں، جن لوگوں کو کابینہ میں لایاگیا ہے وہ کام کریں۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ اگر یہ لوگ کام نہ کریں تو ان کو نکال دیا جائے۔
ٹروتھ کمیشن کا مطالبہ
سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ٹی وی پر ہم اپنی بات کر رہے ہوتے ہیں ، حکومت کی نمائندگی نہیں کر رہے ہوتے، حقائق عوام کے سامنے لانے کے لیے ٹروتھ کمیشن بنایا جائے اور اس کمیشن کے ذریعے سامنے لایا جائے کہ ملک میں کیا ہوتا رہا، ہرا ٓدمی جس معاملے کو جانتا ہے اس پر بیان ریکارڈ کروا دے۔
انہوں نے کہا کہ ہر کوئی احتساب کی بات کرتا ہے مگر کسی شخص کا احتساب نہیں ہوا، ہم احتساب کی بات تو کرتے ہیں مگر نیت نہیں ہوتی، اگرکوئی کرپشن کرتا ہے تو ہم قانون کے تقاضے پورے نہیں کرتے، مجھ سے پہلے وزیر پیٹرولیم پر 458 ارب کرپشن کا کیس لگا تھا، بعد میں کچھ ثابت نہیں ہوا تھا اور کیس بند ہوگیا تھا۔
نیب بند کیا جائے
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں قومی احستاب بیورو ( نیب ) کو بند کر کے ہر ایک کا ٹیکس ریکارڈ رکھا جائے، جو بھی پیسے خرچ کرتا ہے اسکی آمدن ہونی چاہیے، اگر آمدن ہے تو دیکھا جائے ٹیکس ادا کیا ہے یا نہیں ، اگر آمدن نہ ہو اور اخراجات کروڑوں میں ہوں تو جواب تو دینا پڑے گا۔
ای سی سی کی سربراہی
ان کا کہنا تھا کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی کو وزیراعظم کو چیئرکرنا چاہیے، ای سی سی میں معیشت کے تمام فیصلے ہوتے ہیں، ای سی سی چیئر نہ کرنے پر وزیراعظم کو ملک چلانے میں مشکل ہوتی ہے، ای سی سی پر وزیراعظم کو کسی نے مس گائیڈ کیا ہے، ای سی سی کی سربراہی چھوڑنا وزیراعظم کا درست فیصلہ نہیں ہے۔
بھارت سے تجارت
انہوں نے کہا کہ ماضی میں ہم بھارت سے تجارت کرتے رہے ہیں ، آج بھی بھارت کیساتھ تھرڈ پارٹی سے تجارت ہو رہی ہے، دوسرے ملک کے حوالے سے معاملات ہوں تو سب کو ایک پیج پر ہونا چاہیے، حکومت بھی کوئی پالیسی بنائے تو پارلیمان میں اپوزیشن کو موقع دے۔
افغانستان اور پاکستان کے تعلقات
ان کا کہنا تھا کہ افغان طالبان کوئی گروہ نہیں وہ ان کی حکومت ہے، بین الاقوامی قوانین کے تحت افغانستان سے بات کرنی چاہیے، افغانستان کی خودمختاری کو بھی ماننا ہوگا، بدقسمتی سے ہم افغانستان کو اپنا حصہ اور اپنے تابع سمجھتے رہے ہیں، خودمختاری مانیں گے تو پھر 2 خودمختار ممالک میں بات ہوگی، پاکستان اور افغانستان کے پاس بات کےعلاوہ کوئی چوائس نہیں، افغانستان سے ہمیں تعلقات بڑھانے چاہئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مغربی سرحد پر ہمارے ہزاروں جوان شہید ہوئے، افغانستان کے ساتھ جنگ کے باوجود تجارت اور آمدورفت بھی زیادہ رہی ہے۔
سابق وزیر اعظم نے مزید کہا کہ اگر نوازشریف وفاق یا صوبےمیں کوئی کردار ادا کرنا چاہیں کر سکتے ہیں ان کی جماعت اقتدار میں ہے۔