بھارت میں اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر اور جرائم و حملوں پر نظر رکھنے والی امریکی تنظیم ہندوتوا واچ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت میں 2023 کے پہلے چھ ماہ کے دوران مسلمانوں کے خلاف اوسطاً ایک دن میں ایک سے زیادہ مرتبہ نفرت انگیز تقاریر کے واقعات پیش آئے اور یہ واقعات ان ریاستوں میں زیادہ دیکھے گئے جہاں انتخابات ہونے والے تھے۔
برطانوی اخبار کے مطابق ہندوتوا واچ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2023 کی پہلی ششماہی میں مختلف اجتماعات میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کے 255 واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ اس سلسلے میں پچھلے سالوں کا کوئی تقابلی ڈیٹا موجود نہیں ہے۔
ہندوتوا واچ نے نفرت انگیز تقریر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی تعریف کو استعمال کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ ابلاغ کی کوئی بھی ایسی شکل، جس میں مذہب، نسل، قومیت، رنگ، جنس یا دیگر شناختی عوامل کی بنیاد پر کسی فرد یا گروہ کے لیے متعصبانہ یا امتیازی زبان استعمال کی جائے۔ رپورٹ کے مطابق تقریباً 70 فیصد واقعات ان ریاستوں میں ہوئے جہاں 2023 اور 2024 میں انتخابات ہونے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ بھارتی ریاستوں مہاراشٹر، کرناٹک، مدھیہ پردیش، راجستھان اور گجرات میں نفرت انگیز تقاریر کے اجتماعات کی سب سے زیادہ تعداد دیکھنے میں آئی اور صرف مہاراشٹر میں ایسے 29 واقعات ہوئے۔زیادہ تر واقعات میں سازشی نظریات کا ذکر کیا گیا اور مسلمانوں کے خلاف تشدد اور ان کے سماجی و اقتصادی بائیکاٹ کا مطالبہ کیا گیا۔ ان واقعات میں سے تقریباً 80 فیصد وزیراعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے زیر انتظام علاقوں میں رونما ہوئے، جس کا 2024 میں ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی کا امکان ہے۔
ہندوتوا واچ نے کہا کہ رپورٹ کے سلسلے میں اس نے ہندو قوم پرست گروپوں کی آن لائن سرگرمیوں کا سراغ لگایا، سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی نفرت انگیز تقاریر کی تصدیق شدہ وڈیوز دیکھیں اور میڈیا میں رپورٹ کیے گئے واقعات کا ڈیٹا مرتب کیا۔ دوسری جانب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت اقلیتوں کے ساتھ بدسلوکی کی ان رپورٹس کا انکار کرتی آئی ہے اور واشنگٹن میں واقع بھارتی سفارت خانے نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
انسانی حقوق کے لیے سرگرم گروپوں نے الزام عائد کیا ہے کہ نریندر مودی کی حکومت میں مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا گیا۔ نریندر مودی کی ہی حکومت نے 5 اگست 2019 کو اپنے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر کو آرٹیکل 370 کے تحت حاصل خصوصی آئینی حیثیت منسوخ کردی تھی۔بھارتی آئین کی اس شق کے مطابق ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت کا درجہ حاصل تھا، جس کے تحت ریاست جموں و کشمیر دفاع، امورِ خارجہ، مالیات اور مواصلات کے علاوہ باقی تمام امور میں خود مختار تھی اور بھارتی آئین کے دیگر حصوں کا نفاذ ریاستی اسمبلی کے اتفاق ہی سے ممکن تھا۔
اسی طرح اس قانون کے تحت ریاست کے شہریوں کو بھارت کے دیگر شہریوں سے مختلف حقوق حاصل تھے، جس کی وجہ سے اس آرٹیکل کے تحت ریاست کے شہریوں کے علاوہ کوئی اور شخص یہاں غیر منقولہ جائیداد نہیں خرید سکتا تھا، یہاں نوکری نہیں کر سکتا اور نہ کشمیر میں آزادانہ طور پر سرمایہ کاری کر سکتا ہے۔
دوسری جانب ریاست کرناٹک میں بی جے پی کے دورِ حکومت میں بھارت میں غیر قانونی تعمیرات کے نام پر مسلمانوں کی جائیدادوں کو مسمار کرنے اور کلاس رومز میں حجاب پہننے پر بھی پابندی عائد کی گئی۔