بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی (آئی آئی یو آئی) کے پروفیسر ڈاکٹر حسن شہزاد نے کہا ہے کہ خواتین تمباکو نوشی سے بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر شدید متاثر ہو رہی ہیں۔
خواتین کے عالمی دن کے موقع کی مناسبت سے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پی آئی ڈی ای) کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر حسن شہزاد نے کہا کہ تمباکو نوشی خواتین کی صحت اور مالی حالات کو بھی متاثر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دیہی علاقوں میں غربت اور تمباکو نوشی دونوں کی سطح شہری علاقوں کے مقابلے میں زیادہ ہے جو حیران کن ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہمسایہ ممالک کی نسبت سگریٹ کی قیمت کم ہے۔ اس رجحان پر روشنی ڈالتے ہوئے پی آئی ڈی ای کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مجموعی طور پر مردوں کے لئے اموات کی لاگت 259 بلین روپے (1.62 بلین ڈالر) ہے ، جو کل اموات کا 92 فیصد ہے ۔ 2019 میں پاکستان میں تمباکو نوشی سے متعلق تمام بیماریوں اور اموات کی وجہ سے ہونے والے کل اخراجات 615.07 بلین روپے (3.85 بلین ڈالر) ہیں۔
سگریٹ پر 26 فیصد ایف ای ڈی اضافے کی ضرورت ہے تاکہ صحت کا بوجھ برداشت کیا جاسکے اور تمباکو نوشی سے پیدا ہونے والی آمدنی کی کمی کو پورا کیا جاسکے۔ سول سوسائٹی کے کارکن سگریٹ پر 26 فیصد ایف ای ڈی کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ ملک تمباکو نوشی کا صحت کا بوجھ برداشت کر سکے۔اس وقت پاکستان میں سگریٹ پر ٹیکس کے دو درجے ہیں اور بین الاقوامی رہنما خطوط میں اس شعبے کے لیے یکساں ٹیکس نظام کی ضرورت ہے۔
ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی مصنوعات کو دوسرے درجے پر رکھتی ہیں تاکہ انہیں کم ٹیکس ادا کرنا پڑے، اس لیے سگریٹ کی قیمتیں کم ہو جاتی ہیں اور وہ عوام کے لیے قابل رسائی ہو جاتی ہیں۔ ان کی آسان رسائی کے نتیجے میں صحت کی دیکھ بھال کے اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے اور معاشرے میں موت اور بیماریوں کا اندیشہ ہوتا ہے۔
سال 2022-23 میں خاطر خواہ اضافے کے بعد ریٹیل قیمتوں میں ایف ای ڈی کا حصہ بالترتیب 48 فیصد اور 68 فیصد تک پہنچ گیا تاہم شرح ایڈجسٹمنٹ کی عدم موجودگی کی وجہ سے 2023-24 میں ایف ای ڈی کے حصص کو برابر کرنے سے آمدنی اور صحت عامہ کی کوششوں پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔