سپریم کورٹ آف پاکستان نے کہا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے سابق صدر پرویز مشرف کو بری کر کے وہ ریلیف دیا جو مانگا ہی نہیں گیا تھا۔
منگل کے روز سپریم کورٹ نے سنگین غداری کیس میں لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا کہ لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ نہ صرف آئین و قانون بلکہ سپریم کورٹ کے احکامات کے بھی خلاف تھا۔
جسٹس منصور علی شاہ کے تحریر کردہ فیصلے میں کہا گیا کہ خصوصی عدالت کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں سپریم کورٹ ہی سن سکتی ہے، لاہور ہائیکورٹ کو خصوصی عدالت کی تشکیل کا مقدمہ سننے کا اختیار نہیں تھا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے کہا گیا کہ خصوصی عدالت اسلام آباد میں تھی اس وجہ سے بھی لاہورہائیکورٹ مقدمہ سننے کی مجاز نہیں تھی۔
تفصیلی فیصلے کے مطابق خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق مجاز فورم پر موجود تھا، متعلقہ فورم کو چھوڑ کر لاہور ہائی کورٹ سے رجوع نہیں کیا جا سکتا تھا، ہائیکورٹ کا یہ کہنا درست نہیں کہ خصوصی عدالت کی تشکیل وفاقی حکومت نےنہیں کی تھی۔
عدالت عظمیٰ کے مطابق خصوصی عدالت کی تشکیل کی منظوری وفاقی کابینہ سے بعد میں لی گئی تھی۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ مصطفٰی ایمپیکس کیس کا سپریم کورٹ کا فیصلہ خصوصی عدالت کی تشکیل کے بعد آیا تھا۔