نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ بلوچ طلباء کی عدم بازیابی سے متعلق کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوگئے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں بلوچ طلباء کی عدم بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت کا آغاز ہوگیا ہے جبکہ جسٹس محسن اختر کیانی سماعت کر رہے ہیں۔
نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ بھی آج عدالت کے روبرو پیش ہوئے ہیں۔
عدالت عالیہ کی جانب سے طلب کیے جانے کے باوجود گزشتہ دو سماعتوں پر نگران وزیراعظم پیش نہیں ہوئے تھے۔
گزشتہ سماعت پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے نگران وزیراعظم ، وزراء اور سیکرٹریز کو پیش ہونے کا حکم دیا تھا جبکہ حساس اداروں پر مشتمل 3 رکنی کمیٹی بھی تشکیل دی تھی۔
نگران وزیر اعظم کے علاوہ سیکرٹری داخلہ ، نگران وفاقی وزیر داخلہ گوہر اعجاز بھی عدالت عالیہ میں پیش ہوئے۔
سماعت کا احوال
سماعت کے آغاز اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالت کو بتایا کہ 4 طلباء کو ٹریس کرنا باقی ہے انہیں تلاش نہیں کیا جاسکا جس پر طلباء کی وکیل ایڈووکیٹ ایمان مزاری نے کہا کہ میری اطلاع کے مطابق 9 طلباء مسنگ ہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ ہم صرف بلوچ طلباء کی حد تک کیس دیکھ رہے ہیں، بتایا گیا ہے کچھ ٹی ٹی پی کا حصہ بن چکے ہیں، انکے مطابق کچھ طلباء گھر آ گئے ہیں کچھ کو ٹریس کررہے ہیں، کیس چلا ہے تو کچھ لوگ گھر آگئے ، ادارے قانون سے بالاتر تر نہیں ہیں۔
پرانی لسٹ کے علاوہ بھی نئے لوگ غائب ہیں؟ عدالت کا استفسار
عدالت کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ پرانی لسٹ کے علاوہ بھی نئے لوگ غائب ہیں؟، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پرانے 12 میں سے8 لوگ غائب تھے جن میں ابھی تین رہتے ہیں، 9 افراد سی ٹی ڈی کی حراست میں تھے، چار افراد کی بازیابی سے متعلق ہمیں مزید وقت درکار ہے، 26 افراد لاپتہ تھے جن میں سے 2 افراد افغانستان ہیں۔
نگران وزیراعظم
دوران سماعت جسٹس محسن اختر کیانی نے نگران وزیر اعظم سے مکالمہ کیا کہ آپ نے عدالت میں پیش ہوکر ثابت کیا کہ آپ بھی قانون کو جوابدہ ہیں۔
نگران وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ نان اسٹیٹ ایکٹرز کی خلاف ورزیاں بھی ریکارڈ ہوتی ہیں، ہمارے بلوچستان کےایک سابق چیف جسٹس کو نماز مغرب کےوقت مسلح جتھوں نے شہید کیا تھا، ان چیف جسٹس صاحب نے ایک انکوائری کی سربراہی کی تھی، نان اسٹیٹ ایکٹر نے اپنی مرضی کی انکوائری نہ ملنے پر یہ قتل کیا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ جبری گمشدگی بالکل ایک مختلف معاملہ ہے، ریاستی اداروں کو معلوم ہے ملک کیسے چلانا ہے، لیکن لوگوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرکے ملک نہیں چلانا۔
انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ ہم آئین کے اندر رہ کر کام کررہے ہیں، میں قانون کے مطابق جواب دہ ہوں ، آپ نے ہمیں بلایا میں پہنچ گیا، میں بلوچستان سے تعلق رکھتا ہوں ، ہم بلوچستان میں مسلح شورش کا سامنا کر رہے ہیں۔
پوری ریاست کو ملزم بنانا درست نہیں ، نگران وزیراعظم
نگران وزیر اعظم نے کہا کہ جبری گمشدگی کے معاملے پر پوری ریاست کو ملزم بنانا درست نہیں، روڈ کنارے لوگوں کو مارا گیا مگر مجال ہے کسی کو انسانی حقوقِ یاد آئے، بسوں سے اتار کر مارا جاتا ہے، چوہدری نام ہے، گجر نام ہے گولی مار دی جاتی ہے، دہشتگردوں کے ہاتھوں 90 ہزار لوگ شہید ہوچکے ہیں، نان اسٹیٹ ایکٹرز بلوچستان میں ہماری زندگیوں کے پیچھے پڑے ہیں، مجھے کسی نے کہا کہ آپ بلوچستان کیسے جائیں گے، بلوچستان میں نسلی پروفائلنگ کرکے قتل کیا جاتا ہے، نان اسٹیٹ ایکٹرز لوگوں کو قتل کرتے ہیں اس پر کیوں نہیں بولتے۔
انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ یو این کا بھی ایک طریقہ ہے وہ پوچھتے ہیں کون لاپتہ ہوا، وہ پوچھتے ہیں آپ جسٹس محسن اختر کیانی ہیں، آپ لاپتہ ہوگئے ہیں جس پر جسٹس محسن اختر نے استفسار کیا کہ آپ مجھے بتا رہے ہیں کہ میں نے جبری لاپتہ ہو جانا ہے؟، نگران وزیر اعظم نے جواب دیا کہ میں مثال دے رہا ہوں میں انوار کا نام لے لیتا ہوں۔
میں صرف لاپتہ افراد کے حوالے سے وضاحت کر رہا ہوں ، نگران وزیراعظم
انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ یہ کہتے ہیں کہ اسٹوڈنٹس کی لسانی بنیادوں پر پروفائلنگ نہ کریں، سسٹم میں کمی اور خامیاں ہیں ثبوت نہیں آتا تو کس کو کیسے سزا دیں، پیرا ملٹری فورسز، کاؤنٹر ٹیررازم کے اداروں پر الزامات لگائے جاتے ہیں، میں صرف لاپتہ افراد کے حوالے سے وضاحت کر رہا ہوں، یہ لاپتہ افراد کا پوچھیں تو پانچ ہزار نام دے دیتے ہیں، یہ خود بھی اس ایشو کو حل نہیں کرنا چاہتے، ان کی وجہ سے پوری ریاست کو مجرم تصور کرنا درست نہیں۔
قانون ایک ہے سب کے حقوق ہیں ، عدالت
عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ بلاشبہ یہ جنگ ہے اور ہماری فوج اور ادارے لڑ رہے ہیں لیکن قانون ایک ہے اور سب کے حقوق ہیں۔
نگران وزیراعظم نے کہا کہ بیس سال سے لڑائی چل رہی ہے، آئندہ پارلیمنٹ آئے گی وہ بھی دیکھے گی، آئے روز کے الزامات سے ریاست کو نکالنا چاہیے، ہم نے اس لیے ہتھیار نہیں اٹھایا کہ ریاست نےہمارے حقوق کی گارنٹی دی ہے، آئین مجھے سیکیورٹی کی گارنٹی دیتا ہے، آئین مجھے ریاست سے بلا مشروط وفاداری کا بھی پابند کرتا ہے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ کسی نان اسٹیٹ ایکٹر کو کوئی عدالت بھی تحفظ نہیں دے رہی، قانون کی پاسداری ہر شہری کا حق ہے، اس بات کا کریڈٹ حکومت کو جاتا ہے 59 لوگوں میں سے صرف 8 لوگ رہ گئے ہیں۔
مکالمہ
جسٹس محسن اختر کیانی نے وزیراعظم سے مکالمہ کیا کہ آپ نے مثال دی تو میں آپکو کچھ مثالیں بھی دے دوں، بلوچستان جانے کی ضرورت نہیں، اسلام آباد میں ہم بہت کچھ دیکھ رہے ہیں، یہ مطیع اللہ جان کھڑے ہیں، انہیں دن دیہاڑے اٹھایا گیا تھا جس پر نگران وزیر اعظم نے کہا کہ ایسا اقدام جس کسی نے اٹھایا ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔
ایمان مزاری
ایڈووکیٹ ایمان مزاری نے موقف اختیار کیا کہ یہ تاثر درست نہیں کہ ہم ریاست کے خلاف کوئی پروپیگنڈا کر رہے ہیں، ہم بھی اسی ریاست کا حصہ ہیں کبھی بھی دہشت گردی کو سپورٹ نہیں کرتے، لاپتہ افراد کے اہل خانہ کے لیے یہ بات بہت تکلیف دہ ہوتی ہے، کہ جب بات لاپتہ افراد کی ہو تو بات دہشت گردوں کی طرف چلی جائے۔
اٹارنی جنرل
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ عدالت نے وزیراعظم کو طلب کیا اور وہ پیش ہو گئے، وزیراعظم نے عدالت میں بیان دے دیا اور یہ معاملہ یہاں ختم ہو گیا، یہ معاملہ وزیراعظم اور عدالت کے درمیان تھا ، درخواستگزار، وزیراعظم کو جواب نہیں دے سکتیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ وہ وزیراعظم کو جواب نہیں دے رہیں ان کا موقف تو پہلے سن لیں جس پر وکیل ایمان مزاری نے کہا کہ ہم بھی شدت پسندی کی کارروائیوں کی حمایت نہیں کرتے، کمیشن کی رپورٹس موجود ہیں کہ جبری گمشدگیوں میں ادارے ملوث ہیں۔
انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ میں ایمان مزاری کے دلائل سے اختلاف کرتا ہوں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ عدالت اور آپ کی اولین کوشش تھی لاپتہ لوگ گھروں کو پہنچ جائیں، درخواست پر کارروائی آگئے نہ بڑھتی تو لوگ بازیاب نہ ہوتے، ہمیشہ کوشش رہی ہے رہا ہونے والے بھی عدالت میں آکراپنا موقف دیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 9 لوگ جو سی ٹی ڈی کے پاس ہیں ان کے نام عدالت کو فراہم کردیئے ہیں، چاہتے ہیں نئی حکومت آجائے اور اسے تھوڑا وقت مل جائے جس پر جسٹس محسن اختر نے کہا کہ بالکل آئندہ سماعت کے لیے تھوڑا وقت دیں گے۔
بعدازاں، اسلام آباد ہائی کورٹ نے لاپتہ افراد سے متعلق کیس کی سماعت ملتوی کردی۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ عدالت نے جو کمیٹی تشکیل دی اسکی رپورٹ جمع کروا دیں۔
بہت شکریہ! آپ جا سکتے ہیں
نگران وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ میں کل ٹی ٹی پی جوائن کر کے مارا جاتا ہوں تو گھر والے بھی روئیں دھوئیں گے، فیصلہ ایک شخص کرتا ہے اور اسکے نتائج دوسروں کو برداشت کرنے پڑتے ہیں، یہ بڑا آسان ہے کہ آپ لواحقین کے نام پر آ کر کہنا شروع کر دیں۔
جسٹس محسن اخترکیانی نے کہا کہ اس عدالت نے مسنگ پرسنز معاملے پر انٹیلیجنس ایجنسیز سربراہان پر مشتمل کمیٹی بنائی ہے جس پر نگران وزیر اعظم نے کہا کہ ہم نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے، یہ ایگزیکٹو کا اختیار ہے انہیں ہی کرنے دیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ وہ ایجنسیوں کے سربراہ ہیں انہوں نے رپورٹ دینی ہے جس پر انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ جی ٹھیک ہے ہم قانون کے مطابق کارروائی کریں گے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ بہت شکریہ! آپ جا سکتے ہیں۔