نگران حکومت نے پاکستان میں ٹیکس ریونیو بڑھانے کےلیے ایف بی آر کی تنظیم نو کے پلان پر عمل درآمد کا کام نئی منتخب حکومت پر چھوڑ دیا۔
پاکستان کی آبادی 24 کروڑ سے زیادہ لیکن رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان کی تعداد صرف 23لاکھ تک محدود ہے۔ ٹیکس ٹو جی ڈی کی موجودہ شرح 8.5 فیصد جبکہ صلاحیت 22 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ ایف بی آر حکام کے مطابق موجودہ 9415 ارب روپے ٹیکس ہدف کے مقابلے میں سالانہ ٹیکس محصولات باآسانی دوگنا کی جا سکتی ہیں۔
نگران وفاقی کابینہ نے ایف بی آر کی تنظیم نو اور ڈیجٹلائزیشن کی منظوری تو دیدی ہے تاہم پلان پر عملدرآمد کیلئے نئی حکومت کو وسیع قانون سازی کرنا پڑے گی۔
چیف ایگزیکٹیو ایس ڈی پی آئی ڈاکٹر عابد قیوم سلہری کا کہنا ہے کہ آنے والی حکومت کو اس میں کچھ قانونی تبدیلیاں کرنا پڑیں گی کچھ رولز چینج کرنا ہوں گے اور ان کو اپنی ترجیح بھی دیکھنا ہوگی۔ کہ وہ کس طریقے سے یہ ٹیکسیشن کے نظام کو بہتر اور مؤثر بنا سکتے ہیں۔
ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے کہا کہ اگر ہمیں اپنے ٹیکس ٹو جی ڈی پی میں اضافہ کرنا ہے تو ری ٹیل سیکٹر، رئیل اسٹیٹ سیکٹر اور باقی تمام ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدنی اس کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا۔
پلان کے تحت وزیر خزانہ کی سربراہی میں ایک وفاقی ٹیکس پالیسی بورڈ قائم کیا جائے گا ۔ کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو کے محکموں کو الگ کر کے ان کی نگرانی کیلئے بورڈ قائم کئے جائیں گے، جن میں نجی ماہرین کو بھی شامل کیا جائےگا۔ تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے تاجر دوست ایپ متعارف کرائی جائے گی تاہم بعض اقتصادی ماہرین منصوبہ ناقابل عمل قرار دیتے ہیں ۔
ماہر ٹیکس امور ڈاکٹر اکرام الحق کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی ناقابل عمل بھی ہے کیونکہ ایف بی آر کو اگر دوحصوں میں تقسیم کردیا جائے گا اور پالیسی بورڈ اور اوورسائٹ بورڈ علیحدہ ہونگے تو اس سے فریگمینٹیشن بڑھے گی کنٹرول اور مینجمنٹ تو بہتر نہیں ہونے لگی اصل تو چاہئے یہ کہ اس کی استعداد کار بڑھانے کیلئے ایک ہی قومی ٹیکس ایجنسی بنائی جائے جس میں صوبوں کے لوگ بھی کام کریں اور پھر یہ ہر سطح کا ٹیکس اکٹھا کرے ایک جگہ ڈیٹا ہوگا تو سارے اخراجات جو ہیں وہ کم ہوں گے یہاں سے تو اخراجات اور بڑھ جائیں گے۔
ایف بی آر میں مجوزہ اصلاحات کیلئے عام انتخابات کے بعد آنے والی حکومت کو ٹیکس قوانین میں ایک ہزار سے زیادہ ترامیم کرنا پڑیں گی۔ ماہرین کے مطابق ٹیکس مشینری کی تنظیم نو کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان ہم آہنگی اور پختہ سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔