جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا ہے کہ جج کو کبھی کسی تنقید سے گھبرانا ہی نہیں چاہیے۔ وقت کے ساتھ سچائی خود سامنےآتی ہے۔ بحیثیت جج ہم اپنے کوئی چیز چھپا نہیں سکتے۔
اسلام آباد میں کورٹ رپورٹرز کی ورکشاپ سے خطاب میں جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ عدلیہ پر2قسم کی تنقید ہوتی ہے، ایک تنقید جب الزام لگایا جاتا ہے کوئی دانستہ فیصلے ہو رہے ہیں، ایک وہ تنقید ہوتی ہے جسے میں پسند نہیں کرتا اسےریلیف کیوں ملا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ توہین کے قوانین برطانیہ میں ججز کا دفاع کرنے کیلئے نہیں بنے، جج کو تنقید سے گھبرانانہیں چاہیے، تنقید کرنے والا بھی اسی عدالت پر اعتبارکرے یہ عدلیہ کا ٹیسٹ ہے۔ جج تنقید کا اثر لے تویہ حلف کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی لیڈر کمزور ہوجائے تو اسے عدالت سزا دینے سے پہلے سزادے دیتی ہے، ریاستی طور پر بھی کمزور سیاسی لیڈر کو سزا سے پہلے سزادی جاتی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ صحافیوں کاکلیدی کرداررہاہے، اظہار رائے کے اصولوں کے بلند رکھنے کیلئے کوڑے بھی کھائے، میں نے کورٹ رپورٹرز سے بہت کچھ سیکھا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی آدھی تاریخ ڈکٹیٹرشپ میں گزری، ڈکٹیٹرشپ میں آزادی اظہاررائے ممکن نہیں۔ بڑے سے بڑے ملزم کیلئے بھی جرم ثابت ہونے تک معصوم ہونےکا تصورہے۔ ذوالفقار علی بھٹوٹرائل کے زمانے کےاخبارات دیکھیں، اس وقت بدقمستی سے اخبارات میں وہ بے گناہی کا مفروضہ موجود نہیں تھا۔