ننکانہ صاحب، پاکستان کے صوبہ پنجاب میں واقع ہے، یہ سکھ مذہب کے پیروکاروں کیلئے ایک انتہائی مقدس مقام ہے، ننکانہ صاحب گردوارہ سکھ مذہب کے بانی، گرو نانک دیو جی کی جائے پیدائش ہے، سکھ یاتری دنیا بھر سے یہاں عبادت کیلئے آتے ہیں اور یہ مقام ان کیلئے روحانی اہمیت کا حامل ہے۔
ننکانہ صاحب میں کئی گردوارے موجود ہیں جو سکھوں کیلئے عبادت کی جگہیں ہوتی ہیں۔ سب سے مشہور گردوارہ جنم استھان ہے، جو گرو نانک دیو جی کی جائے پیدائش پر واقع ہے، یہاں سکھ مذہبی تقریبات، خصوصاً گرو نانک دیو جی کے جنم دن کی تقریبات بڑے پیمانے پر منعقد کی جاتی ہیں۔ ننکانہ صاحب میں آنیوالے سکھ یاتری عبادت کے علاوہ یہاں کی تاریخ اور ثقافت سے بھی جڑے ہوتے ہیں، یہ مقام سکھ مذہب کی تاریخ اور گرو نانک دیو جی کی تعلیمات کو سمجھنے کیلئے بھی اہم ہے۔
ترن کور کا خاندان ننکانہ صاحب کیسے پہنچا
سکھوں کا یہ خاندان خیبرپختونخوا کے ضلع اورکزئی سے تعلق رکھتا تھا جوکہ ماضی میں اورکزئی ایجنسی کہلاتا تھا، 1972ء میں یہ خاندان اورکزئی سے ہجرت کرکے صوبہ پنجاب کے ضلع ننکانہ صاحب میں آکر آباد ہوا تھا۔ فیملی کے مطابق 1971ء کی جنگ کے بعد ننکانہ صاحب میں سکھوں کی آبادی نہ ہونے کے برابر تھی۔
جب یہ خاندان اور کچھ لوگ ننکانہ صاحب پہنچے تو یہاں سب سے بڑا اور پہلا مسئلہ کھانے پینے کا پیش آیا تھا۔ پہلی بار لنگر سسٹم کا آغاز 1972ء میں قریب ہی واقع ایک ’’پٹی صاحب گوردوارے‘‘ میں شروع کیا گیا تھا۔
کڑاہ پرشاد پکانے کا آغاز ترن کور اور ان کے بھائی نے کیا۔ 1980ء میں ضیاء الحق کی حکومت آئی تو ننکانہ صاحب سے 300 لوگ یہاں ہجرت کرکے آئے تھے۔
ترن کور کے بیٹے کلیان سنگھ کا کہنا ہے کہ 1972ء سے 1990ء تک ننکانہ صاحب میں قریباً 17سے 18 خاندان ہی آباد ہوئے تھے، اب 300 کے قریب خاندانوں کا سلسلہ ننکانہ صاحب شہر سے جڑگیا ہے۔
ترن کور اپنے ہاتھوں سے 40 سال سے ’’کڑاہ پرشاد‘‘ پکا کر تقسیم کررہی ہیں۔ ترن کور کا کہنا ہے کہ میں نے 30 سال کی عمر میں یہ لنگر پکانا شروع کیا تھا۔
ترن کور مزید کہتی ہیں کہ میرا خاندان جب ننکانہ صاحب سے آکر آباد ہوا تو میں نے اپنی سکھ کمیونٹی کی خواتین کیلئے سوشل ورکر کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔
کڑاہ پرشاد ہے کیا؟
ترن کور 40 سال سے کڑاہ پرشاد پکاتی ہیں اور اسے سکھ یاتریوں میں تقسیم کرتی ہیں۔ کڑاہ پرشاد ہے کیا؟ کڑاہ پرشاد جو کہ ایک قسم کا حلوہ ہے۔ سکھ مذہب کی عبادتی رسومات کا ایک اہم حصہ ہے اور یہ عام طور پر گردواروں میں تیار کیا جاتا ہے۔ یہ ایک میٹھی ڈش ہے جو آٹے، گھی اور سوجی، مکھن کا صاف کردہ روغن، دیسی گھی اور چینی سے بنائی جاتی ہے۔
کڑاہ پرشاد کی تیاری اور تقسیم سکھ مذہب کی روحانی رسومات کا ایک جز ہے اور یہ محبت، برابری اور بھائی چارے کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ ترن کور کے کڑاہ پرشاد، حلوہ کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں کوئی مصنوعی ذائقے یا رنگ شامل نہیں ہوتے، یہ ایک خالص اور قدرتی پکوان ہے جو بہت مزیدار ہوتا ہے۔
کڑاہ پرشاد کب کب پکایا جاتا ہے
ترن کور اپنے گھر کے صحن میں کڑاہ پرشاد کو ایک دیگ میں پکاتی ہیں۔ ترن کور کہتی ہیں کہ جب میں نے یہ کام شروع کیا تھا تو ایک کھلے برتن میں ایک مناسب مقدار میں پکاتی تھی، مقدار میں کم پکانے کی وجہ یہاں سکھوں کی اتنی خاص آبادی کا نہ ہونا تھا، اس لئے لوگوں کے حساب سے پکایا جاتا تاکہ کھانے والا تازہ ہی اس کو کھالے، جیسے جیسے دوسرے شہروں سے لوگ یہاں ننکانہ صاحب آکر آباد ہونا شروع ہوئے تو اس مقدار میں اٖضافہ کر دیا گیا۔
ترن کور کا کہنا ہے کہ یہ بہت محنت طلب کام ہے، گھر کے صحن میں سردیوں کی صبح اس کو پکانا کوئی آسان کام نہیں ہوتا، ہم اپنے لوگوں کی محبت میں یہ سب کرتے ہیں اور آئندہ بھی یہ سلسلہ بابا جی کی کرپا سے چلتا رہے گا۔
ترن کور کہتی ہیں کہ کڑاہ پرشاد دن میں دو بار تقسیم ہوتا ہے اور پھر یہ سلسلہ پرشاد ختم ہونے تک جاری رہتا ہے۔ پہلی بار صبح سویرے 2 بجے اس کی پکائی شروع ہوجاتی ہے اور 3 سے 4 گھنٹے میں یہ پک کر تیار ہوجاتا ہے، صبح ناشتے کے ٹائم اس کی تقسیم شروع ہوتی ہے اور پھر جب تک پرشاد ختم نہیں ہوجاتا یہ سلسلہ یونہی جاری رہتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس کے بعد شام 5 بجے ایک بار پھر کڑاہ پرشاد کو پکایا جاتا ہے اور اسی طرح تقسیم کیا جاتا ہے۔ ہرمیت سنگھ ننکانہ کے رہائشی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ کوئی دن ایسا نہیں گزرا جس دن کڑاہ پرشاد کی تقسیم نہ ہوئی ہو، مخصوص ٹائم میں ملنے والے پرشاد سے کھانے کا مسئلہ نہیں ہوتا سب لوگ جانتے ہیں کہ کڑاہ پرشاد تو مل ہی جانا ہے کھانے کی پرواہ کیوں کریں۔
ترن کور سابق صوبائی وزیر تحریک انصاف مہندر پال سنگھ کی پھوپھی (بُوا) ہیں۔ مہندد پال سنگھ کا کہنا ہے کہ کڑاہ پرشاد میرے والد گیانی سنگھ رویول نے پکانا 80ء کی دہائی میں شروع کیا تھا، جب 1993ء میں وہ گیانی سنگھ گورد وارے کے ہیڈ بنے تو یہ کام انہی کے خاندان میں ان کی بہن ترن کور نے شروع کیا۔
انہوں نے بتایا کہ گیانی سنگھ کی وفات 30 دسمبر 2021 میں ہوئی تھی، ان کی وفات کے بعد بابا گرونانک دیو جی کے ہاں یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے تو میری پھوپھی نے اس رسم کو آج تک جاری رکھا ہوا ہے۔
دھن کور نے کیسے خواتین کی مدد کی
دھن کور کا کہنا ہے کہ ملک بھر سے سکھ برادری جب ہجرت کرکے ننکانہ صاحب آئی تو سکھ خواتین کو بہت سی مشکلات کا سامنا تھا، 80ء کی دہائی میں پاکستان میں اقلیتوں کو سیاسی اور سماجی حالات خاصے پیچیدہ تھے، جس کا اثر مختلف اقلیتی گروہوں بشمول سکھوں پر بھی پڑا، ۔
دھن کور نے خواتین کے ساتھ مل کر بابا گرونانک کے گردوارے کی انتظامی ذمہ داریاں سنبھالیں، جس کے بعد تمام خواتین نے یہاں آنیوالے سکھ یاتریوں کی لنگر خانے میں تینوں وقت کے کھانے پینے کی ذمہ داری پوری کی۔
ترن کور کی کہانی ایک مثال ہے، معاشرے میں ایک سادہ سی عورت بھی اپنی زندگی میں بڑا فرق پیدا کرسکتی ہے، ان کی ہمت کو لوگ ہمیشہ یاد رکھیں گے۔