بلوچستان میں درجنوں نامی گرامی قدیم جنگلات موجود ہیں، صوبے میں معتدل موسم کی وجہ سے مختلف قسم کے قیمتی درخت اگتے ہیں، جن میں نمایاں درخت جنگلی زیتون (Olive) ہیں جو قدرتی طور پر پہاڑی اور میدانی علاقوں میں کثرت سے پائے جاتے ہیں جونیپر اور پالوس بھی یہاں پیدا ہونیوالے قیمتی درختوں میں سرفہرست ہیں، ان تاریخی درختوں کے بے پناہ فوائد ہیں۔
جنگلی زیتون کے درختوں سے حاصل کردہ تیل کو کھانے اور ادویات میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے اور یہ کم پانی پر انحصار کرنے والا دیرپا درخت ہے، جو ماحول دوست بھی ہے۔ جونیپر(صنوبر) کے درخت سے حاصل کردہ تیل سے مختلف خطرناک بیماریوں مثلاً کینسر، سانپ کے ڈسنے کی دوائی اور کئی دیگر ادویات بنتی ہیں، سب سے بڑھ کر تاریخی جنگلات ماحولیات کے اثرات کو روکنے سمیت قدرتی آفات سے بچاؤ میں مددگار ثابت ہوتے ہیں لیکن اب یہ تاریخی جنگلات بلوچستان سے ختم ہوتے جارہے ہیں۔
بلوچستان کے بالائی علاقوں میں سخت سردی کی وجہ سے لوگ تاریخی درختوں کو کاٹنے پر مجبور ہیں، خضدار کے پہاڑی علاقے مولہ سے تعلق رکھنے والے جان محمد پہاڑی کے دامن میں مال مویشی پال کر اپنا گزر بسر کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ میرا ذریعہ معاش مال مویشی پالنے پر ہے لیکن اس سے میرا گزر بسر پورا نہیں ہوتا، سردیوں کے سیزن میں، میں جانوروں کو چرانے سمیت جنگل سے لکڑیاں کاٹتا ہوں، جس سے میری آمدنی میں اضافہ ہوجاتا ہے، گرمیوں میں لکڑی کی مانگ نہیں ہوتی جبکہ بلوچستان کے اکثر علاقوں میں گیس کی عدم دستیابی، کم پریشر یا مہنگی ہونے کی وجہ سے لوگ سردی سے بچنے کیلئے لکڑی استعمال کرتے ہیں، گیس کے مقابلے میں لکڑی کے استعمال میں خرچہ اور خطرہ کم اور دیرپا فائدہ زیادہ ہے، اس وجہ سے میں سردیوں میں قدرتی جنگلات کی کٹائی کرتا ہوں اور لوگوں کو لکڑیاں فروخت کرتا ہوں۔
انہوں نے بتایا کہ بلوچستان میں اکثر لوگ کھانا پکانے کیلئے بھی لکڑیاں استعمال کرتے ہیں، اس کا واضح ثبوت شہروں میں موجود بڑے ٹال ہیں، جہاں ہزاروں من لکڑیاں ہر ایک ٹال میں موجود ہوتی ہیں۔
جان محمد کا مزید کہنا ہے کہ مجھے کسی کی جانب سے روکا نہیں گیا البتہ دوسرے پہاڑی علاقوں میں لکڑیوں کو کاٹنے کی ایک چین ہے، سب سے پہلے جنگل یا پہاڑ مالک ہر سال اپنے علاقے کے جنگلات کو کاٹنے کیلئے کسی لکڑ ہارے کو ٹھیکہ دیتا ہے اور کم عمر درختوں کو کاٹنے سے منع بھی کرتا ہے تاکہ چھوٹے درختوں کو بڑا کرکے زیادہ لکڑیاں ان سے حاصل کرے۔
انہوں نے بتایا کہ کٹائی کے بعد سوکھی لکڑیاں فوراً فروخت کرنے کیلئے شہروں کو روانہ کردیتے ہیں جبکہ ہری لکڑیوں کے خشک ہونے کا انتظار کیا جاتا ہے اور یہ کام صرف سردیوں میں ہوتا ہے، کیونکہ سردیوں میں لکڑیوں کی طلب زیادہ ہوتی ہے اور سرد موسم میں لکڑیاں خشک اور آسانی سے کاٹی جاسکتی ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں جان محمد نے بتایا کہ اگر حکومت کی جانب سے کارروائی ہوتی تو صوبائی درالحکومت کوئٹہ میں سرعام لکڑیاں فروخت نہ ہوتیں، کوئٹہ میں گیس ہونے کے باوجود لکڑیاں فروخت ہوتی ہیں تو دیگر ایسے علاقے جہاں گیس نہیں وہاں پر تو لکڑیوں کی خرید و فروخت زیادہ عروج پر ہوتی ہے۔
خضدار شہر میں بھی درجنوں ٹال موجود ہیں جہاں پر مختلف درختوں کی لکڑیاں فروخت کی جاتی ہیں، جنہیں مقامی زبان میں خط، شہتوت، مر، پرپوک، کری اور دیگر کہا جاتا ہے۔ محمد صادق نامی ٹال مالک نے بتایا کہ محمکہ جنگلات کی کارروائی کے باوجود جنگلات کی کٹائی جاری ہے، پہاڑی علاقوں میں جہاں پر ان کی رسائی نہیں ہوتی وہاں جنگلات ختم ہوگئے ہیں۔
انہوں نے زیتون درخت کی بڑی جڑ دکھاتے ہوئے کہا کہ اس جڑ سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ مقامی لوگ درختوں کو جڑ سے اکھاڑ کر فروخت کرتے ہیں لیکن کافی ایسے پہاڑی علاقے بھی ہیں جہاں قبائلی شخصیات کے خوف سے لوگ جنگلات نہیں کاٹتے۔
صوبے کے مختلف اضلاع زیارت، ژوب اور شیرانی میں تاریخی جنگلات موجود ہیں، اس طرح باقی علاقوں میں زیتون و دیگر منفرد جنگلات موجود ہیں، یہ جنگلی علاقے سطح سمندر سے 16 ہزار فٹ بلندی پر واقع ہیں، جس کی وجہ سے یہاں سردی بھی زیادہ ہوتی ہے، ان کی تاریخ دیکھی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں کے جنگلات تقریباً 5 ہزار سے 7 ہزار سال تک پرانے ہیں۔
بلوچستان میں حکومتی سطح پر جنگلات پر کام نہ ہونے کے برابر ہے، سرکاری سطح پر جنگلات کے اعداد و شمار اور تاریخ بھی نہیں ہے۔ بلوچستان میں محکمہ جنگلات اور جنگلی حیات (BFWD) میں کنزرویٹر آف فاریسٹ کے طور پر کام کرنیوالے نعیم جاوید محمد حسنی کی تحقیقات اور اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان اپنے وسیع رقبے، کم انسانی آبادی اور خوبصورت مناظر کی وجہ سے متنوع نباتات اور حیوانات کیلئے بیابانوں کی صلاحیت رکھتا ہے، صوبے کے معتدل موسم کے نتیجے میں منفرد حیوانات اور پھولوں کی حیاتیاتی تنوع ہے، اس کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں درختوں کی وجہ سے بے پناہ جنگلی حیات زندہ ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بلوچستان کے جنگلات میں 71 اقسام کے جانور، 356 قسم کے پرندے، 94 قسم کے رینگنے والے جانور موجود ہیں، تازہ پانی میں رہنے والی مچھلیوں کیلئے بھی جنگلات کا اہم کردار ہوتا ہے، یہاں کے جنگلات میں پائے جانیوالے جانوروں میں سلیمان مارخور، جنگلی بلی، چلتن مارخور (جنگلی بکرا)، عام چیتے، سندھ آئی بیکس، ایشیاٹک جیکال، افغان یوریل، ہائینا، چنکارا گزیل، بھیڑیا، کالا ریچھ اور ہنی بیجر شامل ہیں۔
بلوچستان میں 3 جنگلات کو نیشنل پارک کا درجہ دیکر نگرانی کی جارہی ہے، ان 27 ہزار 400 ہیکٹر پر مشتمل ہزار گنجی چلتن پارک کوئٹہ بھی ایک ہے جہاں چلتن مارخوروں کی حفاظت کی جاتی ہے، ہنگول نیشنل پارک جس کا رقبہ 6 لاکھ 19 ہزار 100 ہیکٹر ہے، جو سندھ آئی بیکس، جنگلی بھیڑیوں اور چنکارا گزیل کے تحفظ کیلئے قائم کیا گیا ہے، زیارت نیشنل پارک جس کا کل رقبہ 16 ہزار 997 ہیکٹر ہے، سلیمان مارخور اور قیمتی نباتات و حیوانات کے تحفظ کیلئے قائم کیا گیا ہے۔
ان مقامات کے علاوہ بلوچستان میں دیگر قدرتی جنگلات عدم توجہی کا شکار ہیں، صوبے کے شہر خضدار، قلات، زیارت، خاران، گوادر، کیچ میں بھی جنگلات موجود ہیں، جہاں منفرد جنگلی حیات پائے جاتے ہیں اور اضلاع میں 9 لاکھ 67 ہزار 608 ہیکٹر پر مشتمل جنگلات اور جانوروں کی پناہ گاہیں ہیں، ان علاقوں پر حکومتی توجہ کی ضرورت ہے کیوں کہ آئے روز یہ جنگلات کم ہورہے ہیں اور مقامی لوگ تیزی کے ساتھ انہیں کاٹ رہے ہیں۔
ورلڈ بینک کی گرین پاکستان جنگلات نامی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں 4لاکھ 98 ہزار 906 ہیکٹر قدرتی جنگلات ہیں جو صوبے کے کل رقبے کا 1.4 فیصد جبکہ پاکستان کے کل جنگلات کا 11.1 فیصد حصہ ہے لیکن آر ٹی آئی کے ذریعے پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس سے حاصل اعداد شمار کے مطابق بلوچستان میں کل رقبے کا 4.06 فیصد حصہ جنگلات پر مشتمل ہے۔
بلوچستان آب و ہوا کے حوالے سے ایک خشک صوبہ ہے جہاں قدرتی جنگلات زیادہ پائے جاتے ہیں اور اگر یہاں شجرکاری کی جائے تو پانی کی کمی کے باعث یہاں شجرکاری زیادہ مؤثر نہیں ہوتی ہے اور شجر کاری کیلئے پانی ٹیوب ویل کے ذریعے زمین سے حاصل کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہر دوسرے روز زیر زمین پانی کی سطح میں کمی دیکھنے کو ملتی ہے اور دوسری جانب صدیوں سے آباد جنگلات کو لوگ تیزی سے کاٹ رہے ہیں، جونیپر جیسے ہزاروں سال پرانے تاریخی درختوں کو بھی کاٹا جارہا ہے، جنہیں دوبارہ اگانا مشکل ہے، جونیپر کے جنگلات دنیا میں ایک امریکا کی مغربی ریاستوں اور دوسرا پاکستان کے علاقے زیارت میں ہیں، ایسے تاریخی اور منفرد درخت ماحول کو سازگار بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
جنگلات پر نظر رکھنی والی گلوبل فاریسٹ واچ نامی ویب سائٹ کے مطابق 2001ء سے 2022ء تک بلوچستان نے 2 ہیکٹر درختوں کا احاطہ کھودیا ہے جو کہ 2000ء کے بعد سے درختوں کے احاطے میں 0.72 فیصد کمی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں 221 ٹن کے برابر ہے۔
بلوچستان میں 2010ء تک سرفہرست ایک علاقے کے تمام درختوں کے 55 فیصد کی نمائندگی کرتا ہے، قلات میں سب سے زیادہ درختوں کا احاطہ ایک ہیکٹر پر تھا، بلوچستان میں گرم موسم کے باعث کے جنگلات کو آگ لگنے کا موسم عام طور پر اپریل کے وسط میں شروع ہوتا ہے اور تقریباً 13 ہفتوں تک رہتا ہے، موسم گرم رہنے کی وجہ سے 26 ستمبر 2022ء سے 25 ستمبر 2023ء کے درمیان فائر الرٹس کی اطلاع دی گئی تھی۔
رپورٹ کے مطابق سال 2022ء میں سب سے زیادہ 16 آگ لگنے کے واقعات رپورٹ ہوئے جب 154 ہیکٹر رقبہ پر جنگلات راکھ ہوگئے، کوہ سلیمان رینج میں لگی اس آگ سے 40 فیصد جنگلات متاثر ہوئے، جہاں چلغوزے کے باغات تھے اور یہ دنیا میں چلغوزے کا پہلا بڑا جنگل سمجھا جاتا ہے، یہاں 10 ملین سے زائد پائن کے درخت ہیں، جن میں ہر ایک کی قیمت اندازاً 20 ہزار روپے ہے، پاکستان نے 2021ء میں 63.2 ہیکٹر پر مشتمل درختوں کا احاطہ کھودیا ہے، یہ بات گلوبل فاریسٹ کے ذریعے رپورٹ کی گئی ہے۔
ورلڈ بینک کے سال 2021ء میں جاری کردہ کلائمیٹ رسک کنٹری پروفائل رپورٹ کے مطابق پاکستان کو دنیا میں بہت زیادہ قدرتی آفات سے خطرے کا سامنا ہے جو کہ 191 ممالک میں 18ویں نمبر پر ہے۔
رپورٹ کے مطابق 2015ء میں پاکستان میں ہیٹ اسٹروک کی وجہ سے 65 ہزار سے زائد افراد اسپتال میں داخل ہوئے اور 1200 افراد جاں بحق ہوئے۔
ماحولیات میں تیزی کے ساتھ تبدیلی انسانی زندگی کیلئے بڑا خطرہ ہے مذکورہ بالا ورلڈ بینک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 1986ء سے 2005ء تک عالمی درجہ حرارت میں 0.61 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا ہے، بلوچستان کے علاقے تربت میں 2017ء کے دوران درجہ حرارت 53.5 سسینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا تھا، دیکھا جائے تو تاریخی درختوں اور جنگلات کو کاٹنے سے ہر سال ماحولیات پر برا اثر پڑتا ہے، بلوچستان میں سال 2022ء کے خطرناک سیلاب اور اس سے قبل خطرناک قحط سالی بھی تیزی کے ساتھ ماحولیات میں تبدیلی کے نتائج رہے ہیں۔
بلوچستان میں گزشتہ سالوں کے دوران موسم پر نظر دوڑائی جائے تو ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن کے مطابق 28 مئی 2017ء کو بلوچستان کے علاقے تربت میں درجہ حرارت 53.7 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا تھا جو دنیا کا چوتھا گرم ترین شہر قرار پایا، اسی طرح محکمہ موسمیات پاکستان کی ویب سائٹ سے حاصل کردہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ نومبر 2019ء میں قلات میں درجہ حرارت منفی 5 ریکارڈ کیا گیا تھا۔
محکمہ موسمیات کے مطابق 1978ء میں قلات میں درجہ حرارت منفی 17 ریکارڈ کیا گیا تھا آج اگر کچھ دہائی پہلے کا ریکارڈ دیکھا جائے تو بہ نسبت موجودہ دہائی سے کم درجہ حرارت ریکارڈ دیکھنے کو ملتے ہیں، دسمبر 1997ء میں دالبندین میں منفی 11 اور 1977ء میں بارکھان کے علاقے میں منفی 10 درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا تھا۔
ورلڈ بینک کی کلائمیٹ رسک پروفائل پاکستان نامی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں 20ویں صدی کے دوران درجہ حرارت 0.57 ڈگری سینٹی گریڈ کا تخمینہ لگایا گیا تھا، جو جنوبی ایشیاء کے خطے کے 0.75 ڈگری سینٹی گریڈ کے اوسط سے تھوڑا کم تھا، 1961-2007ء کے درمیان 0.47 درجہ حرارت کی پیمائش کے ساتھ حال ہی میں گرمی میں تیزی آئی ہے، پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے علاقے مذکورہ بالا عرصے میں موسم سرما میں درجہ حرارت میں 0.91 سے 1.12 تک گرمی کا سامنا کررہے ہیں۔
غربت کی وجہ سے جنگلات کی کٹائی
مہران یونیورسٹی جامشورو اور مختلف بین الاقوامی یونیورسٹیوں کے تعاون سے تیارکردہ ''واٹر'' نامی آرٹیکل میں لکھا گیا ہے کہ پاکستان میں 10 میں سے ہر 4 سال خشک سالی کے ہوتے ہیں اور خشک سالی میں صوبہ بلوچستان عروج پر ہے، اس آرٹیکل کے مطابق صوبے کے تقریباً 85 فیصد لوگ زراعت پر انحصار کرتے ہیں، جس سے اکثر کسان اپنی قابل کاشت زرخیز زمینوں کو جنگل سے زراعت کی طرف منتقل کردیتے ہیں اور جنگلات کے شاندار درختوں کو کاٹتے ہیں، آگاہی کی کمی، درختوں کی کٹائی اور اسی طرح کے دیگر عوامل جنگلات کی خراب حالت زار کو مزید بڑھا رہے ہیں، غیر منصوبہ بند شہر کاری، خاص طور پر کوئٹہ، گوادر اور خضدار کے مضافات میں عروج کو چھو رہی ہے اور اس کیخلاف کوئی سخت پالیسیاں نہیں ہیں۔ رپورٹ کے مطابق سکڑتے ہوئے جنگل ہر گزرتے دن کے ساتھ غبار میں اُڑ رہے ہیں اور اس کے اثرات قدرتی آفات میں نظر آتے ہیں، بلوچستان میں سبی، تربت، واشک و دیگر علاقوں میں مجموعی طور پر دن گرم رہتا ہے، 2017ء میں صوبے کا پارہ 53.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ صوبہ انتہائی موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہے۔
بلوچستان میں قیمتی جنگلات سکڑ رہے ہیں
جنگلات کی کٹائی کو روکنے کیلئے بلوچستان میں واحد ایکٹ برطانوی دور کا جنگلات کے ضابطے کا ہے، جو درختوں کو کاٹنے میں ملوث مجرموں کو سزا دینے کیلئے کمزور ہے، صوبائی حکومت نے بلوچستان فاریسٹ ایکٹ 2022ء منظور تو کرلیا ہے لیکن اس کا نفاذ ابھی تک پوری طرح نہیں ہوسکا، اگرچہ مقامی قانون نافذ ہے، موجودہ جرمانہ قانون توڑنے والوں پر اثر انداز ہونے کیلئے بہت معمولی ہے، بلوچستان فاریسٹ ایکٹ 2022ء کے مطابق زیادہ سے زیادہ جرمانہ 50 ہزار اور 2 سال قید جبکہ کم سے کم سزا کسی چھوٹے سے درخت کو کاٹنے پر 40 روپے ہے۔
ٹال مالک شیر محمد نے بتایا کہ چند سال قبل خضدار شہر میں درجنوں ٹال ہوا کرتے تھے، جہاں پر جنگلی لکڑیاں ہزاروں من کے حساب سے لاکر فروخت کی جاتی تھیں، اب یہ تمام ٹالوں میں لکڑیاں کم ہیں، اس کی وجہ جنگلوں میں لکڑیاں ختم ہونا اور دوسری جانب حکومت کی جانب سے سختی سے جنگلی درختوں خط / زیتون، صنوبر، گن اور پرپوک کو کاٹنے پر پابندی عائد ہے، جس کے بعد صرف سرکاری اجازت پر جہاں لوگ اپنی ذاتی اور آبادی والے درختوں کو کاٹ سکتے ہیں۔
شیر محمد کی ان باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت بلوچستان کی جانب سے بلوچستان فاریسٹ ایکٹ 2022ء پاس ہونے کے بعد کسی حد تک اس کا نفاذ ہوا ہے جس سے جنگلات کی کٹائی میں کمی آئی ہے۔
خضدار کے علاقے مولہ سے تعلق رکھنے والے لکڑہارے شبیر احمد نے بتایا ہمیں جنگلات کے کاٹنے کے نقصانات تو معلوم نہیں البتہ ہمیں فائدے یہ ہیں کہ ہمیں جانوروں کیلئے خوراک اور گھروں کی چھتوں اور کچن کے استعمال کیلئے لکڑیاں دستیاب ہوتی ہیں اور سب سے بڑھ کر ہمیں یہاں سے ہمارے آمدن کا ایک اچھا خاصا حصہ بھی مل جاتا ہے لیکن نونہال درختوں کی کٹائی سے ہمارے تمام تر مفادات ختم ہوجاتے ہیں۔
محکمہ جنگلات اور جنگلی حیات کے کنزرویٹر آف فاریسٹ آفیسر نعیم جاوید محمد حسنی کا کہنا ہے کہ محکمہ جنگلات اپنی سطح پر تیزی سے کام کررہی ہے، 10 ملین ٹری سونامی پروجیکٹ کے تحت صوبہ بھر میں درخت لگائے گئے ہیں، یہ منصوبہ آخری مراحل میں ہے اس کے بعد نتائج سامنے آئیں گے کہ جنگلات میں کتنا اضافہ ہوا ہے۔
محکمہ جنگلات لورالائی کے آفیسر محمد امین مینگل نے فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے مختلف موسموں کی وجہ سے یہاں مختلف جنگلات پائے جاتے ہیں، سمندر کے قریب علاقوں اور بالائی علاقوں کے جنگلات میں فرق پایا جاتا ہے، سمندری علاقوں میں مینگروو اور بالائی علاقوں میں صنوبر اور زیتون کے درخت اگتے ہیں، بلوچستان کے 5 اضلاع قلات، مستونگ، زیارت، لورالائی کے کچھ علاقوں میں بڑے پیمانے پر صنوبر کے قدرتی درخت ہیں، چونکہ لوگ بڑی تعداد میں آباؤ اجداد سے ان جنگلی علاقوں میں رہائش پذیر ہیں، دوسرے روزگار کے مواقع نہ ہونے اور شدید سرد موسم کی وجہ سے مقامی لوگ جنگلات کو کاٹتے ہیں، جنگلات پر مشتمل یہ علاقے نقل مکانی کے ایک راستے پر ہیں، جس سے نقل مکانی کرنیوالے لوگ بھی ان جنگلات کو کاٹ کر اپنی ضرورت کے تحت استعمال کرتے ہیں، حکومت کی جانب سے جنگلات کی کٹائی کرنے سے لوگوں کو روکنے کے محافظ بھی موجود ہوتے ہیں جو جنگلات کی کٹائی سے مقامی لوگوں کو روکتے ہیں مگر طویل علاقے اور محکمہ جنگلات کے محافظ اہلکاروں کے پاس وسائل اور سہولت نہ ہونے سے جنگلات کی کٹائی کو 100 فیصد روکنا ممکن نہیں۔
حال ہی میں بلوچستان حکومت نے زیارت میں نوجوانوں کو جنگلات کے تحفظ کے بارے میں آگاہی دینے کیلئے پہلا فاریسٹ اسکول قائم کیا ہے، جس کے ذریعے جنگلات کی اہمیت کے بارے میں شہریوں کو آگاہ کرنے کیلئے ایک وسیع آگاہی مہم چلائی جارہی ہے تاہم صرف یہ کافی نہیں ہے، اس کے علاوہ سول سوسائٹی سمیت ہر ادارے اور تنظیم کو جنگلات کے تحفظ کیلئے عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔
جنگلات کے تحفظ کیلئے محکمہ جنگلات کو نگرانی کے بہتر آلات فراہم کئے جائیں، مقامی لوگوں کو متبادل ایندھن جیسے گیس فراہم کی جائے اور جنگلات کی کٹائی سے متعلق قوانین اور ایکٹ پر فوری عملدرآمد کرنے کی بھی ضرورت ہے، اس کے علاوہ ٹمبر مافیا کیخلاف صوبے کے کونے کونے میں چیک اینڈ بیلنس کا نظام ہونا بہت ضروری ہے۔
جنگلات مقامی لوگوں کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ سبز اور ماحول دوست گیسز کے اخراج میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جنگلات موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے، سیلابوں کو کم کرنے اور موسم کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں تاہم صوبہ بلوچستان میں قیمتی جنگلات سکڑ رہے ہیں اور جنگلات کی کٹائی کئی دہائیوں سے خطرناک حد تک جاری ہے، اگر ٹھوس اقدامات نہ کئے گئے تو مستقبل باقی جنگلات بھی ختم ہو جائیں گے۔